کشمیریوں سے اظہار یکجہتی: ثابت ہو گیا قوم متحد ہے

Last Updated On 31 August,2019 10:50 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) نہتے کشمیریوں پر ظلم، جبر اور بربریت کے خلاف ملک بھر میں منایا جانیوالا یوم یکجہتی کشمیر اس امر کا ثبوت ہے کہ کشمیر کاز اور کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے عرصہ حیات تنگ کرنے کے خلاف مزاحمتی کردار پر قوم یکسو اور سنجیدہ ہے اور وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کیلئے آخری حد تک ساتھ دیں گے۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیریوں سے یکجہتی کے حوالے سے تو پہلے ہی دو آراء نہیں، لیکن ان کی آزادی کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے ؟ عالمی برادری کو ساتھ ملانے کیلئے کیا اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں؟ اور یہ کہ 27 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کس حد تک نتیجہ خیز ہوگی؟ عالمی برادری بھارت پر کشمیریوں کے خلاف مظالم اور ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے ؟۔

پاکستان میں کل کا دن کشمیریوں کے ساتھ ایک تاریخ ساز یکجہتی کے طور پر منایا گیا۔ مگر اس صورتحال میں بھی ذہنوں کے اندر ایک سوال ابھر رہا ہے کہ اس یکجہتی کا اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی کو کیا فائدہ ہوگا ؟ جدید دنیا کے مہذب معاشروں میں تحریر، تقریر اور پر امن احتجاج کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ جمہوری معاشرے جمہور کی آواز کو اپنے دل اور فکر و نظر کے بہت قریب سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر سے یہ یکجہتی اہلِ کشمیر کیلئے بہت اہم پیغام ہے کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جس کے دل اہلِ کشمیر کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور کشمیر پاکستانی قوم کے خون کا لازمی حصہ ہے۔ دنیا بھر کو بھی یہ پیغام دیا گیا کہ اہل پاکستان اور اہل کشمیر یک جان ہیں اور کشمیریوں کی آزادی در حقیقت پاکستان کی تکمیل ہوگی۔ پاکستانیوں کا اس قدر باہر نکلنا اصل میں عالمی معاشرے کے شہریوں کے ضمیر کو جگانے کیلئے تھا جو دنیا کے ہر خطے میں نا انصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے بجا طور پر عالمی ضمیر کو جھنجوڑا ہے کہ اگر اہل کشمیر مسلمان قومیت سے تعلق نہ رکھتے تو دنیا کب کی ان کے مسائل کا احساس بھی کرتی اور مداوا بھی کر چکی ہوتی۔ در حقیقت یہ دنیا کے منصفوں کا وہ منافقت بھرا رویہ ہے جس سے دنیا مستقل امن سے دور ہو رہی ہے اور عالمی امن جنسِ کمیاب بنتا جا رہا ہے۔

دوسرا سوال اب ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ جدوجہد آزادی کیلئے ہماری حکمت عملی کیا ہے ؟ ایک طریقہ تو وہی تھا جسے ریاست نے 1989ء میں اپنایا اور ہر سطح پر اہل کشمیر کی مدد کی اور ریاست نے حکمت سے اہل پاکستان کو بھی جگا کر کشمیریوں کی عملی مدد پر ابھارا تھا۔ مگر بعد کے عالمی حالات اور افغانستان کے اندر امریکہ کے گھس بیٹھنے کے بعد دنیا اس طرز کی مزاحمت کو دہشت گردی سے جوڑنے لگی تو پھر پاکستان نے بھی غیر اعلانیہ اس حمایت کو ترک کر دیا۔ تو کیا اب پھر اس طریقہ کار کو دوبارہ دعوت دی جائیگی ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اب حالات اور عالمی سطح کی انڈر سٹینڈنگ ایسی نہیں اور پاکستان کے اندر بھی اس کیلئے حمایت موجود نہیں۔ پاکستان کے اندر اس نقطئہ نظر کی حامل لیڈر شپ منظر عام پر بھی نہیں کیونکہ بھارت ہماری غفلت اور کمزور سفارتکاری سے ان شخصیات اور اس نقطئہ نظر کو دہشت گردی سے جوڑ چکا ہے۔ پاکستان ابھی تک معاشی میدان میں اس کی قیمت اداکر رہا ہے اور آئے دن ایف اے ٹی ایف کے روڈ میپ پر چل کر ٹیرر فنانسنگ کے خدشات کو دور کر رہا ہے۔ دوسرا راستہ ہے پر امن جدوجہد کو دنیا کے سامنے رکھنے کا۔ دنیا شاید کشمیر پر پاکستانی نقطئہ نظر نہ سمجھنا چاہتی ہو مگر وہ انسانی حقوق کی بدترین پالیسیوں کو اپنی توجہ کا مرکز ضرور بناتی ہے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے یا نہ بنے مگر اہل کشمیر پر بھارت کا تسلط ان کا حقِ خود ارادیت دنیا تسلیم کرتی ہے۔

مودی کے یک طرفہ اقدامات کے بعد دنیا خطہ کشمیر کو خصوصی توجہ سے دیکھ اور سمجھ رہی ہے ۔ ایسے ماحول میں جدوجہد آزادی کو کشمیری قوم خود زندہ رکھے گی۔ پاکستان کو صرف اس تحریک کو عالمی فورمز پر زندہ رکھنا ہوگا۔ انٹرنیٹ کے اس تیز رفتار دور میں گولی سے زیادہ نہتے لوگوں کے آزادی کے نعرے بہت توجہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اب حکومت پاکستان عالمی برادری کو جگانے کیلئے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے ؟ بجا کہ اہل پاکستان دوپہر بارہ بجے سائرن بجنے کی آوازوں سے جاگ اٹھے ہیں مگر عالمی سطح پر بڑے اقدامات پاکستان کی جانب سے دکھائی نہیں دے رہے۔ سارا زور اور قوت اس پر صرف کی جا رہی ہے کہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیراعظم ایک تاریخ ساز خطاب کریں گے ۔ کیا اس ایک تقریر سے اہل کشمیر کی مصیبتوں کا مداوا ہو جائیگا ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ ایک مستقل اور صبر طلب کام ہے اور اس پر بیتابی اور جلد نتائج کی توقع رکھے بغیر مستقل چلنا ہوگا۔ ہمارے دفترِ خارجہ اور وزیر خارجہ کا کام اور حکمتِ عملی اب تک کوئی متاثر کن نہیں رہی۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد کئی محاذوں پر خارجہ پالیسی کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں مگر کشمیر اور مودی کے نئے اقدامات کے بعد ہمارے خارجہ آفس کی کارکردگی متاثر کن نہ تھی اور ہر لمحہ اب تک محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس محاذ پر ہندوستان سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ بہر حال اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ہمیں سستی اور غفلت سے باہر نکل کر تلخ اور بے رحم حقائق کا سامنا کرتے ہوئے عالمی دنیا کیلئے قابلِ قبول حکمتِ عملی اور مؤقف سامنے لانا ہوگا۔ جس سے جدوجہدِ آزادی کو عالمی سطح پر پذیرائی بھی ملے اور نریندر مودی پر دباؤ بھی بڑھے اور کشمیر جیسا تصفیہ طلب معاملہ حل کی جانب بڑھے۔