اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان کو بڑی کامیابی مل گئی، او آئی سی کو متحرک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا، وزیراعظم کی درخواست پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے او آئی سی کا اجلاس بلانے کی یقین دہانی کرا دی جس میں یو اے ای، بحرین، ترکی اور انڈونیشیا کی شرکت بھی متوقع ہے، اجلاس آئندہ سال اپریل کے دوران اسلام آبا دمیں ہو گا۔
ذرائع کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کی یقین دہانی کرا دی ہے، اجلاس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، ترکی، انڈونیشیا ودیگر ممالک کی شرکت متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے سعودی دباؤ کے باعث ملائیشیا سمٹ میں شرکت نہیں کی: ترک صدر
ذرائع کے مطابق او آئی سی کا آئندہ اجلاس اسلام آباد میں ہو گا، یہ اجلاس آئندہ سال اپریل کے دوران اسلام آبا د میں ہو گا۔ او آئی سی اجلاس کا سرفہرست ایجنڈا مقبوضہ وادی کی صورتحال، بھارت میں شہریت کے متنازع بل کے بعد کی صورتحال ہو گی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا وزرائے خارجہ اجلاس ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور سمٹ کے بعد خصوصی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے حالیہ کامیاب کوالالمپور سمٹ کے بعد او آئی سی کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سعودی وزیر خارجہ پرنسل فیصل بن فرحان السعود نے حالیہ دورے میں وزیراعظم کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم امہ میں یکجہتی کیلئے پاکستان نے ملائیشیا سمٹ میں شرکت نہیں کی: دفتر خارجہ
ذرائع کے مطابق او آئی سی کے کم فعال کردار پر ملائشیا، ترکی، انڈونیشیا، قطر، ایران سمیت دیگر مسلم ممالک کو تحفظات ہیں، تحفظات کے باعث ملائیشیا میں ہونے والی سمٹ کو متبادل پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
واضح رہے کہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ہونے والی سمٹ کے دوران عالمی سطح پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اس سمٹ کو او آئی سی کے متبادل کے طور پر مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس سمٹ کے دوران وزیراعظم عمران خان نے شرکت کا اعلان کیا تاہم سعودی عرب کے دباؤ کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اپنا دورہ ملائیشیا منسوخ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے روکنے کا بیان بے بنیاد: سعودی عرب
اس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ پاکستان نے سعودی عرب کے معاشی دباؤ کی وجہ سے ملائیشیا سمٹ میں شرکت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کے لیے پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مخصوص معاملات پر دباؤ ڈالا ہو۔ سعودی حکومت نے دھمکی دی کہ 40 لاکھ پاکستانی ورکرز کو واپس بھیج دیا جائے گا اور ان کی جگہ بنگلا دیش کے شہریوں کو ویزے دیئے جائیں گے۔ پاکستان کو معاشی دشواریوں کے باعث سعودی عرب کی خواہشات پر عمل کرنا پڑا۔
دوسری طرف ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ ملائیشیا میں ہونے والی سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اقدام مسلم امہ میں اتحاد ویکجہتی کیلئے اٹھایا گیا تھا۔ مسلم ممالک کو تقسیم سے بچانے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت تھی، جس کے باعث ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم امہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا جبکہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
مزید برآں سعودی عرب نے وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور ریاض کے درمیان تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہے۔
سعودی سفارتخانے کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کرنے کی خبریں بے بنیاد ہے، پاکستان کو سمٹ میں شرکت سے روکنے کیلئے کسی قسم کی دھمکی دینے کی بھی تردید کرتے ہیں۔
سعودی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہے، دونوں ممالک کے درمیان باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی گہرے تذویراتی تعلقات ہیں، سعودی عرب اور پاکستان کے مابین بیشترعلاقائی، عالمی بالخصوص امت مسلمہ کے معاملات سے متعلق اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا اور ساتھ دیا تا کہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکے۔