پکھی واس اور ان کے گھگھو گھوڑے

Last Updated On 12 January,2020 07:36 pm

لاہور: (دنیا میگزین) گلی گلی روزی کی خاطر پھرنے اور دربدر خیموں میں زندگی بسر کرنے والے پکھی واس گھگھو گھوڑے بنانے کے فن سے نسل در نسل وابستہ ہیں۔

خوشیوں کے تہواروں پر بھی کپڑوں اور جوتوں سے بے نیاز یہ پکھی واس چمکیلے کاغذ اور بھوسہ سے تیار کیے جانے والے کاغذ اور لیٹی سے بنی ڈگڈگی، دستی پنکھے، کاغذ سے بنی کلہاڑیاں اور پرندوں کی اشکال والے آئیٹمز بنا کر دیہی علاقوں اور بڑے شہروں کی شاہراہوں پر بیٹھے ملتے ہیں۔ بڑی عید جیسے تہواروں پر پورے تین روز ان شاہراہوں پر براجمان ہوتے ہیں۔

پکھی واس اپنے بچوں کی شادی کم عمری میں ہی کر دیتے ہیں۔ مرد زیادہ تر جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور عورتیں بھیک مانگنے جاتی ہیں۔ مرد بندر تماشا بھی کرتے ہیں۔

جب بچوں اور بوڑھوں کا جھمگھٹا لگتا ہے تو دائرے میں کھڑا پکھی واس ہاتھ میں پکڑی ڈفلی کے ساتھ یہ بندر تماشا کرتا ہے جبکہ ریچھ کا کرتب دکھانے میں بھی ان کا پورا دن گزر جاتا ہے جس کی پیٹھ پر یہ بچوں کو بٹھا کر چند ٹکے اپنی جھولی میں ڈال لیتے ہیں۔

بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کے پالتو کتوں کے ساتھ بھی بعض اوقات ریچھ کتے کی لڑائی میں ان کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ ایک المیہ ان پکھی واسوں کا یہ ہے کہ ان کے بچوں میں یہ کرتب نسل در نسل چلتے آ رہے ہیں اور انہی پر ان کی روٹی روزی کا انحصار ہوتا ہے۔

دنیا کے قدیم قبائل جو اپنے ہاتھوں کی بنی اشیا کی بنا پر انفرادیت رکھتے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے آج بھی آباد ہیں آج سے 40,45 برس قبل ان قبائل کی عورتیں دستکاری کا کام نہایت عمدہ سلیقے اور قرینے سے کیا کرتی تھیں۔

آج انہیں اس کام کی اجرت نہیں مل پاتی۔ ان کی ہنرمندی اپنی مثال آپ تھی۔ گھریلو استعمال میں ان کی بنی ہوئی اشیا ایک مقام رکھتی تھیں۔ تفاوت یہاں آ پہنچی کہ ان پکھی واس عورتوں کے ہاتھوں سے بنی اشیا جو عام استعمال میں آتی تھیں، اب عالیشان بنگلوں، کوٹھیوں، ڈرائنگ رومز میں آویزاں نمائشی طور پر سجی نظر آتی ہیں اور اسے ثقافت کا نام دیا جاتا ہے۔

ان پکھی واسوں کی اکثریت کی روزی آج بھی ہاتھ سے بنی چیزوں سے منسلک ہے۔ ’’کوندر‘‘ جو تالابوں میں یا پانی والی سیم زدہ جگہ پر ہوتی ہے کو تیز اوزاروں سے کاٹ کروہ دھوپ میں سوکھنے کیلئے رکھ دیتے ہیں اور جب سوکھ جاتی ہے تو اس کو پانی میں گیلا کرکے لکڑی کی ’’منگلی ‘‘سے کوٹا جاتا ہے اور پھر اس کوندر سے چارپائیوں کا’’ بان ‘‘تیار کرکے گلی گلی آواز لگا کر بیچا جاتا ہے اور اس طرح پکھی واسوں کا روزی کمانے کا ایک ذریعہ کوندر سے بنی چیزیں بھی بنتی ہیں۔

جنوبی پنجاب میں عورتیں اپنی روزی کی خاطر کھجور کے پتوں سے ’’پڑچھے‘‘ تیار کرتی ہیں اور گرمیوں میں لوگ ان پڑچھوں کو چارپائیوں پر بچھاتے ہیں۔

بزرگوں کے مطابق کھجور کے ’’پڑچھے‘‘ گرمیوں میں گرمی کی شدت سے بچاتے ہیں اس کے علاوہ کھجور کے پتوں اور گندم کی ’’نلی ‘‘ جسے ’’ناڑ ‘‘کہا جاتا ہے کو مختلف رنگوں سے رنگ کر ’’چنگیر‘‘بناتی ہیں اور یہ چنگیریں آج بھی جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ثقافتی میلوں پر نظر آتی ہیں جبکہ کھجور کے پتوں سے ’’سندڑے‘‘ بھی بنانے میں پکھی واس عورتیں مہارت رکھتی ہیں جو ہاٹ پاٹ کی شکل میں ہوتے ہیں اور ان میں روٹیاں رکھی جاتی ہیں تاکہ وہ گرم رہیں۔

یہ عورتیں سرکنڈوں کی تیلیوں سے’’ چھاج ‘‘بھی بنا کر بیچتی ہیں تاکہ حلق اور روٹی کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے اگلے وقتوں میں ’’بنجارا‘‘ ہوتا تھا۔ قریہ قریہ چوڑیاں لیکر گھومنا جس کا معمول تھا اور عورتیں بھی بلا تردد اس سے چوڑیاں پہنانے میں عار محسوس نہیں کرتی تھیں۔ مگر وقت نے کروٹ بدلی اب یہ کاروبار پکھی واسوں کی عورتیں کرنے لگی ہیں۔

خانہ بدوش کرہ ارض کے قدیم قبائل تو ہیں مگر آج تک قوم کا درجہ نہ پا سکے۔ خانہ بدوشوں کی قدیم تاریخ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا ذکر قبل مسیح حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور حکومت میں بھی ملتا ہے جو آج بھی روز اول کی طرح پتھروں کے دور میں رہ رہے ہیں۔ پکھی واس قدیم دور میں پتلی تماشے کا کام بھی کرتے تھے اور بڑے بڑے عوامی اجتماعات میں اپنے خاکوں کے ذریعے بادشاہوں کے تاریخی واقعات کو ایسے پیش کرتے کہ معصوم بچوں کے اذہان پروہ سبق بن کر ثبت ہو جاتے۔

برسوں یہ خاکے ان بچوں کے حافظے کی تختی سے مٹ نہ پاتے۔ زمانہ اپنی چال چل گیا اور آج پتلی تماشوں کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جاتی لیکن ان کی ضرورت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی ماضی بعید میں تھی پتلی تماشوں کا کھیل وقت کے ساتھ تعلیم یافتہ اور مالدار طبقہ کی دسترس میں چلا گیا اور یہ طبقہ اپنے پپٹ شوز، پتلی تماشوں میں اپنی قدیم روایت اور تہذیب کے خاتمے کا سبب بنا اور ان کے شوز اور تماشوں میں غیر قوموں اور تہذیبوں کی نمائندگی نمایاں ہوتی گئی۔

بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے ایسے گروہوں کی سرپرستی کی، انہیں مراعات دیں اور پرموٹ کیا اگر ان قدیم روایت کے حامل خانہ بدوش قبائل کو مراعات دی جاتیں، نوازشات کی جاتیں تو وہ اپنی دیرینہ اور قدیم تہذیب میں رنگ بھرتے۔

ریشماں سے لیکر علن فقیر تک نے ان خیمہ بستیوں میں جنم لیا اور اپنی آواز کے جادو سے برصغیر پاک وہند کی فضا میں سروں کا رنگ بھر دیا۔ ماضی اور آج کے پکھی واسوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

آج کے پکھی واسوں میں ماضی کے رنگ وروپ کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ معاشرتی اعتبار سے ماضی کے پکھی واسوں کا جو تعلق معاشرہ کے عام فرد کے ساتھ نظر آتا تھا آج وہ اس تعلق سے برسوں دور کھڑے ہیں۔

 

(تحریر: ایم آر ملک)