افغانستان سے فوج کا انخلاء،امریکا80ء کی دہائی والی غلطی نہ دہرائے: وزیر خارجہ

Last Updated On 18 January,2020 12:01 am

نیو یارک: (ویب ڈیسک) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان سے ذمہ دارانہ طریقے سے فوجیوں کا انخلاء کرے اور 80ء کی دہائی کی غلطی کو دوبارہ نہ دہرائے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کروانے میں پاکستان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، یہ ثالثی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست کے بعد شروع کی گئی۔

آئی ایس آئی کے حقانی نیٹ ورک سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمیں مستقبل اور ماضی کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارا قومی ادارہ (آئی ایس آئی) افغانستان میں امن لانے کے لیے سپورٹ کر رہا ہے اور اپنا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان عارضی فائر بندی کیلئے تیار، دستاویز زلمے خلیل زاد کے سپرد

انٹرویو کے دوران وزیر خارجہ سے سوال پوچھا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھارت میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کریں گے جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت اور وزیراعظم کا بڑا صاف مؤقف ہے کہ مودی سرکار ایک قدم آگے بڑھائے گی تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔

انٹرویو کے دوران وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں میرا پہلا مقصد تناﺅمیں کمی لانا تھا، خطے میں قیام امن کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کوششیں کرتے رہیں گے پاک امریکا تعلقات کی تاریخ دونوں ممالک کے مل کر کام کرنے کی قدر و اہمیت کی شاہد ہے.

امریکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو کے دوران شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ایران امریکا تنازعہ خطے کے لیے نہایت خطرناک ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، حسن روحانی اور جواد ظریف بھی تناﺅ میں اضافہ نہیں چاہتے، انہیں اندازہ ہے کہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے سے کیا نتائج پیدا ہوں گے.

ان کا کہنا تھا کہ کشیدگی میں کمی لانا ہر ایک کے مفاد میں ہے دونوں ممالک کے تنازعہ سے تیل کی قیمتوں میں خلل اور بین الاقوامی معیشت بھی متاثر ہو گی، فضائی کارروائیوں کی وجہ سے بننے والے اس تناﺅ کو ختم کرنے کے لیے اقدام اٹھانے ہوں گے.

اس سے قبل واشنگٹن میں منعقدہ کمیونٹی تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ بعض ممالک پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ مذاکرات سے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں، اس پر بھی ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے، پاکستان نے ہمیشہ امن اور مذاکرات کی بات کی ہے لیکن بھارت کا رویہ مخاصمانہ رہا، بھارت نے صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کیا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کی گئی، مزید فوجوں کو مقبوضہ وادی بھجوایا گیا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے اندر اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے امتیازی قوانین بنائے گئے جس کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ ساتھ وہ بھارتی جو سیکولر ہندوستان کے حامی تھے ، سراپا احتجاج ہیں اور احتجاج کا دائرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھاک ہ ہم نے سیکورٹی کونسل کو اپنے ان خدشات کا اظہار کیا کہ بھارت اپنے داخلی بدامنی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کےلئے پلوامہ کی طرح کا کوئی فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے۔ پلوامہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے جارحیت کی جس کا ہم نے ردعمل میں جواب دیا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی پاکستان کا مثبت تشخص ابھارنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، میں نے ڈیڑھ سال کے بعد کیپیٹل ہل کے رویہ میں بہت تبدیلی دیکھی۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ اگست 2017ء کو جنوبی ایشیائی پالیسی کا اعلان ہوتا ہے اور پاکستان کو منفی درجہ دیا جاتا ہے اور آج پاکستان کی ستائش کی جا رہی ہے، افغان عمل امن میں پاکستان کی مصالحانہ کاوشوں کو سراہا جا رہا ہے، ہم نے انہیں شرپسند عناصر سے بھی خبردار کر دیا ہے جو امن مخالف ہیں۔ پاکستان نے اپنا مصالحانہ کردار خلوصِ نیت سے ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کی طرف سے کل سامنے آنے والا بیان انتہائی حوصلہ افزاءہے، طالبان کو سازگار بنانے کےلئے آمادہ ہونے سے امن معاہدے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ امریکا اور طالبان کو معاہدہ طے پانے کے بعد ہمیں امید ہے کہ ”بین الاافغان“ مذاکرات کا آغاز ہو گا۔

کشمیر سے متعلق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کوشش ہو گی کہ سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو سے ہونے والی ملاقات میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال سے آگاہ کروں کیونکہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو خطہ میں ایک اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، ہم خطہ میں امن کے متمنی ہیں تاکہ ہم پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کی طرف توجہ مرکوز کر سکیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سمجھتا ہوں آزادانہ خارجہ پالیسی کیلئے معاشی استحکام کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے کہتا ہوں کہ آپ امریکی کاروباری حضرات کو پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کےلئے آمادہ کریں تاکہ وہاں روزگار کے مواقع میسر آئیں اور معیشت کا پہیہ چلے، ہم نے کاروبار کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کیلئے نئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں تاکہ بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان کی طرف متوجہ ہوں۔