لوگ پوچھتے نظر آ رہے ہیں کورونا کا عذاب کب ٹلے گا

Last Updated On 27 April,2020 08:43 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ایک جانب ملک میں کورونا کا عذاب مسلط ہے اور ہر آنے والے دن میں متاثرین اور اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ دوسری جانب اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت میں کوئی قومی بیانیہ نظر نہیں آ رہا اور کورونا وائرس پر سیاست کا عمل مشکل اور پریشانی کی اس گھڑی میں صورتحال کو گھمبیر بنا رہا ہے جس کی وجہ سے پریشان حال اور متاثرہ عوام میں مایوسی اور ملک میں بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ عذاب کب ٹلے گا۔ کورونا کے اثرات صرف عوام پر ہی نہیں ہوئے بلکہ اس نے ملکوں کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ خصوصاً ترقی پذیر ممالک تو اس صورتحال پر چکرا کر رہ گئے ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں ہمیشہ حکومتیں سب کو ساتھ ملا کر لائحہ عمل ترتیب دیتی ہیں اور پھر اس پر گامزن ہو کر چیلنج سے نمٹنے کے ساتھ اس کے نقصانات کا ازالہ بھی ہو پاتا ہے لیکن پاکستان میں عملاً صورتحال اس سے مختلف رہی۔

بڑے چیلنج اور خطرناک دباؤ پر ہر جانب سے یہ کہا گیا کہ اس پر سیاست کی گنجائش نہیں اور اس سے نمٹنے کیلئے ایک متعلقہ قومی ایجنڈا بنا کر آگے چلا جائے لیکن وزیراعظم عمران خان جو میڈیا کے پراپیگنڈا کے ذریعے ہر طرح کے حالات میں خود سے لڑنے کا خود ساختہ امیج بنائے ہوئے تھے وہ کورونا سے لڑنے اور اس حوالے سے ہونے والے اقدامات پر سولو پرواز کا تاثر دیتے رہے۔ پہلے پہل تو خود اپوزیشن کی لیڈرشپ نے بھی حکومت کو غیر مشروط تعاون کی پیشکش کی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر اب صورتحال میں ایک مرتبہ پھر تناؤ نظر آ رہا ہے اور خصوصاً مرکز اور سندھ کے درمیان کارکردگی کے مقابلہ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی روش نے نئی صورتحال طاری کر رکھی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ کی پہلی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی جب حکومت نے امدادی مہم کیلئے اپنی ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا اور اپوزیشن کا موقف تھا کہ اس اقدام کے ذریعہ حکومت اپنے پارٹی کارکنوں کو توڑنا چاہتی ہے۔ حکومت سرکاری خزانہ سے کورونا وائرس کے متاثرین کی امداد کا بہانہ بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرے گی اور وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں یہ کہہ دیا کہ ریلیف کی ساری کوششیں اس کے ذریعہ ہوں گی اور یہ سب اس کے کھاتے میں جائیں گی، اس طرح اپنے اراکین اسمبلی کو خوش کرنے کی کوشش کی اور دوسری جانب اپوزیشن نے وزیراعظم کی امدادی سرگرمیوں کے جواب میں انہیں اپنی جماعتوں کے الگ سے ریلیف اکاؤنٹس بنا دئیے جس سے اندازا لگانا مشکل نہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن میں کورونا کی عالمی وبا سے نمٹنے میں بھی بد اعتمادی پائی جاتی ہے۔ حالانکہ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ حکومت اور قومی قیادت کو ملکی بقا کے لئے اپنی اپنی انا کے گول سے نکل کر مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہئے تھا جو عملاً ممکن نہیں بن سکا اور اب جوں جوں حالات آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن میں موجود ‘‘ہاکس’’ ایک دوسرے پر برستے نظر آ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی نااہلی اور متاثرین کی امداد کے حوالے سے ناکامی کے الزامات عائد ہو رہے ہیں اور لگ یوں رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں جانب سے ذمہ داری کے احساس کی بجائے نمبرز گیم چلے گی لیکن اس کے اثرات پریشان حال متاثرین پر ہوں گے۔ ایک جانب کورونا کے ایشو پر پولائزیشن کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب آٹا اور چینی بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ آنے پر وزیراعظم کی جانب سے یہ اعلان خبروں میں ٹارگٹ بن رہا ہے جس کے تحت انہیں 25 اپریل تک ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنی تھی اور اب اس کے تحقیقاتی عمل میں تین ہفتوں کی تاخیر خود حکومتی پوزیشن کو کمزور بنا رہی ہے اور اپوزیشن کے ذمہ داران خصوصاً مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا یہ بیان کہ چینی سکینڈل کی رپورٹ میں تاخیر سو ارب کے حکومتی ڈاکے کی تصدیق ہے کے جواب میں مشیر اطلاعات کا یہ بیان کہ آٹا اور چینی سکینڈل کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ شریف خاندان نے حاصل کیا۔

اس سکینڈل کے ذمہ داران کون ہیں۔ کس نے کتنا لوٹا’ یہ بتایا اور انہیں بے نقاب کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور خود وزیراعظم عمران خان ریکارڈ پر ہیں کہ وہ اس کے ذمہ داران کو انجام پر پہنچائیں گے لیکن معاملہ میں تاخیر بہت سی چہ میگوئیوں کو ہوا دے رہی ہے اور خصوصاً حکومت اور جہانگیر ترین کے درمیان سیز فائر ظاہر کر رہا ہے کہ ان کے درمیان معاملات بہتر ہوئے ہیں لیکن بنیادی ایشو یہ ہے کہ ماضی میں کس نے کس طرح لوٹا یا سبسڈی لی۔ یہ سوال نہیں بڑا سوال یہ ہے کہ اب 3 ارب کی سبسڈی اور 90 ارب کی رقم عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مار کر حاصل کرنے والے کون ہیں ؟ یہ عمران خان کی حکومت میں ہوا ہے جو ماضی میں اس سارے عمل کے بڑے ناقد رہے ہیں اور لگتا یہ ہے کہ اصل ذمہ داران سے توجہ ہٹانے کیلئے ملک میں سیاسی محاذ آرائی کی ایک نئی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے تاکہ الزامات کی آندھی میں یہ سارا معاملہ گول کر دیا جائے لیکن یہ خود وزیراعظم عمران خان کیلئے بڑا امتحان ہوگا اور اگر اس مرحلہ پر چینی سکینڈل سے صرف نظر برتا گیا تو پھر رمضان المبارک کے بعد اپوزیشن چینی سکینڈل کے ساتھ کورونا میں حکومتی کارکردگی کو جواز بنا کر ایک نیا محاذ کھڑا کرے گی جس کا کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو اس کا اصل نقصان کورونا کے متاثرین اور ان کیلئے جاری امدادی مہم کو ہوگا۔