سعودی عرب میں 9 ہزار سال پرانا گاؤں سیاحوں کی توجہ کا مرکز

Last Updated On 18 September,2019 05:38 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) سعودی عرب میں ایک ایسا گاؤں واقع ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 9 ہزار سال پہلے سے موجود ہے۔ سرزمین کی مجموعی جغرافیائی صورتحال کے برعکس یہاں باغات اور پانی کے چشمے واقع ہیں جو اس مقام کو خاصا صحت افزا بناتے ہیں، یہاں ہزاروں سال پرانے بنے گھر گارے، پتھروں اور کھجور کے تنوں سے بنائے گئے ہیں جن کی باقیات کھنڈرات کی شکل میں آج بھی دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق سبزے اور خوبصورت نظاروں سے بھرپور یہ گاوں تاریخی طور پر سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔  القصار  نامی اس گاؤں کو ثقافتی ورثہ کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے، یہ جازان سے 40 کلومیٹر دور بحیرہ احمر کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع ہے۔

اس گاؤں کی وجہ شہرت ہر جانب پھیلے کھجور کے باغات ہیں، اس جزیرے کو دور سے دیکھا جائے تو یہ کھجور کے درختوں سے گھرا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں موجود عمارتیں اپنے طرز تعمیر میں ہزاروں سال پرانے نقوش کے سبب تاریخی ورثہ کا حصہ ہیں جس کے سبب یہاں سیاحوں کا یہاں رش سا لگا رہتا ہے۔ سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے سیاحت اور قومی ورثہ نے اس ثقافتی ورثے کو اصل شکل میں بحال رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

تاریخی محقق، ماہر آثار قدیمہ اور سعودی ایسوسی ایشن آف ٹور گائیڈز کے رکن طراد العنزی کا کہنا تھا کہ "مؤرخین کے مطابق یہ گاؤں رومن عہد کا ہے۔ اس میں نوشتہ جات اور نقاشی بھی شامل ہیں، جب کہ 400 پرانے مکانات آج بھی موجود ہیں۔ یہ بستی حمیری دور سے ہی کھجوروں اور پانی کے چشموں کی وجہ سے مشہور ہے۔

انہوں نے موجودہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ القصار گاؤں میں سیاحوں کی سہولت کے لیے ریستوران اور لوک کیفے، فرسانی ورثے کا ایک میوزیم اور سمندری دستکاری کی نمائش نیز روایتی فرسانی مصنوعات کی کئی دکانیں بھی وہاں موجود ہیں جہاں سیاحت کے لیے آنے والے اپنی پسند کی یادگاری مصنوعات خرید کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ اپنی تاریخ سے شناسائی رکھنے والی قومیں ہی دنیا میں اپنا وقار قائم رکھ پاتی ہیں ورنہ ثقافتوں کی بھیڑ میں ان کی اپنی شناخت کہیں کھو جاتی ہے۔