لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور مظلوم کشمیریوں کے خلاف بھارت کی ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ ضلع پلوامہ میں بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی افواج نے مزید 14 نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ بھارت کی سفاکیت پر عالمی سطح پر کوئی آواز نہیں اٹھ رہی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کا رد عمل بھی محض بیانات اور رپورٹس کی اشاعت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے شہادتوں پر رد عمل بھی قراردادوں، اعلانات اور بیانات تک محدود ہے ۔ 8 جولائی 2016 کو نوجوان برہان مظفر وانی کی شہادت کشمیر میں جدوجہد کے اس مرحلہ کا نکتہ آغاز بنی اور کوئی دن ایسا نہیں گیا کہ کشمیری عوام، نوجوان خواتین اور بچے حق خود ارادیت کیلئے باہر نہ نکلے ہوں اور عملاً مقبوضہ وادی میں بھارت کے خلاف ایک بغاوت کی سی صورتحال طاری ہے۔
تقریباً ایک لاکھ سے زائد شہادتوں کی تاریخ رقم کرنے کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ اور ولولہ ماند پڑتا نظر نہیں آ رہا اور بعض بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق کشمیر میں کوئی ایسا گھرانہ نہیں رہا جو بھارتی ریاستی دہشت گردی سے متاثر اور شکار نہ ہو۔
عالمی برادری خصوصاً امریکہ کی خاموشی بھارتی ریاستی دہشتگردی پر ان کی نیم رضا مندی کو ظاہر کر رہی ہے کیونکہ انہیں انسانیت نہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ جدوجہدِ آزادی کشمیر کی تحریک پر نظر دوڑائی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر 70 سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور ان قراردادوں کے مطابق حتمی فیصلہ کشمیریوں کو کرنا ہے لیکن بد قسمتی سے اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
اسی طرح کہنے کو تو پاکستان کشمیر کو اپنی خارجہ پالیسی کا کور ایشو کہتا ہے مگر ہمیں اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملی۔ علاقائی صورتحال میں دیکھا جائے تو اس مسئلہ کی ناکامی نے جنوبی ایشیا کی دو طاقتوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر آنے سے روک رکھا ہے۔
اس کی وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی ہے اور وہ مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر کو دیکھنے کیلئے تیار نہیں دوسری جانب کشمیری عوام اور نوجوان شہادتوں کی تاریخ رقم کرتے جا رہے ہیں۔ بھارت کے فوجی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد ماند نہیں پڑ رہی۔ نہتے کشمیری بھارتی فوج کا مقابلہ ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں سے کر رہے ہیں۔ بھارت نے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر رکھا ہے ۔ تعلیمی ادارے بند، انٹرنیٹ سروس معطل، کاروبارِ زندگی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جنرل مشرف نے تو اپنے دور میں مسئلہ کشمیر سے عملاً دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
میاں نواز شریف نے کم از کم اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر انہیں جھنجھوڑتے ہوئے برہان مظفر وانی کو آزادی کا سپاہی ضرور قرار دیا تھا اور بعد ازاں اس وقت کی اپوزیشن اور خصوصاً تحریک انصاف نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے تعلقات کو ٹارگٹ کرتی نظر آتی تھی۔ اب نئی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو امید تھی کہ بھارت سے تعلقات اور مذاکرات کا بخار چڑھائے بغیر منتخب حکومت کشمیریوں کی جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی محاذ کو گرم کرے گی اور بتائے گی کہ کشمیر کے اندر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے نوجوان گوشت پوست کے انسان ہیں مگر محسوس یہ ہوا کہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان پالیسی کے حوالے سے اگر کسی ایک نکتہ پر اتفاق نظر آتا ہے تو وہ صرف اور صرف بھارت سے مذاکرات اور اس کیلئے قدم اٹھانے کی جلدی ہے۔
یہ تو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مزاحمتی قوت ہے جس نے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ ہماری اشرافیہ تو دستبردار ہونے پر تُلی نظر آ رہی ہے۔ مگر عملاً نظر آ رہا ہے کہ شہادتوں کا سلسلہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اور اب تو یہ سلسلہ ایک دن میں دس دس شہادتوں تک جا پہنچا ہے۔ کشمیریوں کی تیسری نسل سروں پر کفن باندھے میدان عمل میں موجود ہے۔ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے بھارت کا بھیانک چہرہ بے نقاب کرنے اور ان کی جمہوریت کا چہرہ چاک کرنے کا یہی وقت ہے۔