مقبوضہ کشمیر میں قتل عام، 14 شہید، 300 سے زائد زخمی

Last Updated On 16 December,2018 05:18 pm

سرینگر: (روزنامہ دنیا) پلوامہ میں جعلی مقابلے میں 3 نوجوانوں کی شہادت پر لوگ مشتعل، احتجاج، جھڑپیں، بھارتی فوج کی نہتے کشمیریوں پر سیدھی فائرنگ، کرفیو نافذ، 3 روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ریاستی دہشتگردی کی انتہا کرتے ہوئے 14 نہتے کشمیریوں کا قتل عام کر دیا، 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ قابض فوج نے نہتے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی، قتل عام کیخلاف وادی بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، پلوامہ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔

بھارتی تسلط کیخلاف اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے، کئی مقامات پر مظاہرین نے ترنگا بھی جلایا۔ حریت قیادت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔ پاکستان نے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ واقعات کی انکوائری کیلئے اقوام متحدہ کمیشن بنائے۔

ہفتے کو پلوامہ کے علاقے خرپورہ سرنو میں بھارتی فوج نے جعلی سرچ آپریشن کے دوران متعدد لوگوں کو گھروں سے نکالا اور خواتین کی بے حرمتی کی، اس آپریشن کے دوران قابض فوج نے تین جوانوں کو شہید کر دیا۔

نوجوانوں کی شہادت کے خلاف علاقے میں کشیدگی پھیل گئی، سخت سردی کے باوجود ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور متاثرہ علاقے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی، اس دوران ان کی قابض فوج سے شدید جھڑپیں بھی ہوئیں، مظاہرین نے بھارت مخالف نعرے بلند کئے۔

فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے سیدھی فائرنگ کر دی جس سے 7 مظاہرین موقع پر شہید ہو گئے جبکہ دیگر افراد نے ہسپتال جا کر دم توڑا۔ پلوامہ ہسپتال کے ڈاکٹر نے میڈیا کو بتایا کہ شہید ہونیوالے تمام افراد کے سر میں گولی ماری گئی۔

جعلی آپریشن میں شہید تین نوجوانوں کی شناخت ظہور احمد ٹھوکر، عدنان حامد بھٹ اور بلال احمد ماگرے کے نام سے ہوئی۔ ظہور احمد ٹھوکر نے ایک سال قبل بھارتی فوج کی نوکری چھوڑ دی تھی۔

فوج کی فائرنگ سے شہید ہونیوالے مظاہرین میں شہباز علی، سہیل احمد، لیاقت احمد، مرتضیٰ بشیر، امیر احمد، عابد حسین لون (ایم بی اے پاس تھا اور اپنی انڈونیشی اہلیہ کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ہی واپس آیا تھا)، 14 سالہ عاقب احمد، شاہد احمد خاندے اور دیگر شامل ہیں۔

سوپور میں شدید کشیدگی کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا، بڑی تعداد میں قابض فوج کے اضافی دستے بھی علاقے میں پہنچ گئے۔ واقعہ کیخلاف سرینگر، سوپور، شوپیاں اور وادی کے دیگر علاقوں میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے جس کے بعد ریلوے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کر دی گئی۔

سرینگر میں شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پلوامہ اور دیگر علاقوں میں شہدا کو سپرد خاک کر دیا گیا، نمازجنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ قتل عام کیخلاف حریت قیادت نے تین روزہ ہڑتال اور سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔ حریت قیادت نے پیر کو سری نگر کے علاقے بادامی باغ کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

میر واعظ عمر فاروق نے ایک بیان میں کہا کہ کشمیریوں پر پیلٹ گنز کے چھروں اور گولیوں کی بارش ہو رہی ہے، انڈین حکومت نے کشمیریوں کو فوج کے ذریعے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، حریت قیادت اور عوام پیر کو بادامی باغ چھاﺅنی کی طرف مارچ کریں گے اور حکومت سے مطالبہ کریں گے تمام کشمیریوں کو الگ الگ مارنے کے بجائے ایک ساتھ ہی مار دیں۔

وادی بھر میں تمام امتحانی پرچے ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ مقبوضہ وادی کے دو سابق وزرائے اعلیٰ نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے ہی شہریوں کو مار کر جنگ نہیں جیت سکتا، کب تک ہم اپنے نوجوانوں کی لاشوں کو اٹھاتے رہیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قتل عام بند کیا جائے۔

سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اسے قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کے بے جا استعمال کا کیا جواز ہے، اس قتل عام کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔

دوسری جانب بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے شہری علاقوں میں نئے سرے سے فوجی بنکر قائم کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ دس اضلاع بالخصوص گرمائی دارالحکومت سری نگر میں فورسز کے بنکر قائم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بھارتی فوج کے سامنے مزاحمت کرنیوالے کشمیری سنگ باز نوجوانوں کو دہشتگرد قرار دیدیا ہے۔