نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت، پاکستان اور ترکی کے بھائی چارے سے خوفزدہ ہو گیا، اقوام متحدہ نے دہشت گردوں کی نشاندہی کی تو الزام ترکی پر لگاتے ہوئے بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ انقرہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے دہشتگردوں کی نشاندہی کے بعد بھارتی میڈیا نے بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ کیرالہ میں دہشت گردوں کو ترکی سپورٹ کرتا ہے۔ طیب اروان جنوبی ایشیاء میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا ناچاہتے ہیں۔
بوکھلاہٹ کے شکار بھارتی میڈیا نے الزام لگایا کہ ترکی کشمیری حریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے، جبکہ عرب ممالک میں اس کا اتحادی قطر بھی سرگرمیوں میں اس کے ساتھ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آیا صوفیہ کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے: رجب طیب اردوان
بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی حکام نے معروف عالم دین ذاکر نائیک کی ذمہ داری بھی پاکستان اور ترکی پر ڈال دی ہے۔
ایک سینئر حکومتی نمائندے کا کہنا ہے کہ ترکی کی نظریں بھارتی مسلمانوں پر ہیں اور پچھلے کچھ عرصے کے دوران انقرہ نئی دہلی میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ترکی جنوبی ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں سعودی عرب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بڑا کردار ادا کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ جبکہ ترک صدر رجب طیب اردوان سلطنت عثمانیہ کے ماضی کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ حال ہی میں ترک عدالت کی جانب سے تاریخی عمارت آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دیے جانے کے بعد 24 جولائی کو وہاں پہلی بار 86 سال کے بعد نماز ادا کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں ’ارطغرل‘ کی پیدائش
ترک عدالت نے 10 جولائی کو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے 11 جولائی کو عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی منظوری دی تھی۔
آیا صوفیہ عمارت کو 1934ء میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا، اس سے قبل مذکورہ عمارت سلطنت عثمانیہ کے قیام سے مسجد میں تبدیل کی گئی تھی۔ استنبول میں واقع یہ تاریخی عمارت 1453 سے قبل 900 سال تک بازنطینی چرچ کے طور پر استعمال ہوتی تھی اور یہ بھی معروف ہے کہ مذکورہ عمارت کو سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں نے پیسوں کے عوض خرید کر مسجد میں تبدیل کیا تھا۔
مگر پھر جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے اور جدید سیکولر ترکی کے قیام کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے مسجد کو 1934 میں میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔ چرچ سے مسجد اور پھر میوزیم کے بعد دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونے والی عمارت میں 24 جولائی کو 86 سال بعد نہ صرف نماز جمعہ ادا کی گئی بلکہ اسی دن عمارت میں تقریباً 9 دہائیوں بعد اذان بھی دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ترک ڈرامہ ارطغرل غازی مقبوضہ کشمیر میں بھی مقبول ہونے لگا
بھارتی میڈیا کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کی منزل عالم اسلام میں بڑا کردار ادا کرنا ہے اس کی بڑی مثال گزشتہ سال ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ہونیوالی سمٹ میں تمام مسلم ممالک کو اکٹھا کرنا تھا، ایران اور قطر نے اس سمٹ میں شرکت کی تھی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا تاہم سعودی دباؤ کے باعث وہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے۔ پاکستان کی نظریں ترکی کی طرف مائل ہوتی جا رہی ہیں جبکہ اردوان بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان شانہ بشانہ چلے۔
بھارتی میڈیا نے بتایا کہ ترک صدر کی نظریں جنوبی ایشیا پر لگی ہوئی ہیں تاکہ اپنا سیاسی ایجنڈا منوایا جا سکے، اب ان کی اگلی منزل بھارت ہے۔ رجب طیب اردوان بھارت میں ہونے والے مسلم سیمینارز کی فنڈنگ بھی کرتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان اس سے قبل متعدد بار بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے متنبہ کر چکے ہیں جبکہ متنازع شہریت ایکٹ پر بھارت کو خبردار بھی کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ارطغرل غازی نے نوجوان کشمیریوں میں آزادی کی نئی روح پھونک دی
ایک بھارتی سکیورٹی آفیشل کا کہنا ہے کہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں، یاد رکھنے کی چیز ہے کہ رجب طیب اردوان وہ واحد عالمی لیڈر ہیں جو اقوام متحدہ میں بھارت کیخلاف بولتے رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی انہوں نے یو این جنرل اسمبلی میں اٹھایا تھا۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ترکی چین کے بعد واحد ملک ہے جس نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی حمایت کی تھی جبکہ کچھ عرصے کے دوران معاشی تعلقات بھی بڑھا رہا ہے۔
یاد رہے کہ اردوان پاکستان کی پارلیمنٹ سے سب سے زیادہ چار مرتبہ خطاب کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ مملکت بن چکے ہیں۔ وہ دو بار بطور وزیر اعظم اور ایک بار بطور صدر پاکستان کی پارلمیان سے خطاب کر چکے ہیں۔
فروری 2020ء میں انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر ترکی کے لیے چنا کلے کی حیثیت رکھتا ہے ۔
خیال رہے کہ چنا کلے ترکی کا وہ مقام ہے جہاں موجودہ ترکی نے 1923ء میں آزادی کی فیصلہ کن جنگ جیتی تھی۔ اس جنگ میں ہزاروں ترک فوجی مارے گئے تھے۔
ترک صدر نے کہا تھا کہ اس وقت کشمیر بھی ہمارے (ترکی) کے لیے وہی ہے جو آپ کے لیے (چنا کلے) تھا۔ کل چنا کلے تھا اور آج چنا کلے ہے، کوئی فرق نہیں ہے ان میں۔پاکستان کا درد ترکی کا درد ہے جبکہ پاکستان کی خوشی ترکی کی خوشی ہے۔