لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے جوڈیشل انکوائری رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا جس پر پنجاب حکومت نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔
لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے رپورٹ شائع کرنے کا حکم دے دیا۔
یہ خبر بھی پڑھیں:سانحہ ماڈل ٹاؤن 17 جون 2014ء کو پیش آیا
جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل 3 رکنی فل بینچ نے صوبائی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت مکمل کر کے 24 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے حکم دیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ 30 دنوں میں عام کی جائے اور تحقیقاتی رپورٹ کی نقول سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو بھی دی جائے۔
یہ خبر بھی پڑھیں:حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ ہائیکورٹ میں پیش کردی
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما زعیم قادری کا کہنا ہے کہ فیصلے کا جائزہ لے رہے ہیں، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر مشاورت کریں گے۔ انہوں نے کہا رپورٹ شائع بھی کر دی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا جواب دیں گے۔ زعیم قادری کا کہنا تھا ہمارے پاس دیگر 2 جےآئی ٹی رپورٹس موجود ہیں، کسی بھی رپورٹ میں وزیر قانون کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا اور نہ ہی کسی حکومتی عہدیدار کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔
یہ خبر بھی پڑھیں:سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ منظر عام پر لانے سے انکاری نہیں، رانا ثنا اللہ
یاد رہے کہ 21 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام کرنے کی عوامی تحریک کی درخواست منظور کرتے ہوئے سیکریٹری ہوم کو جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت نے اپیل دائر کرتے ہوئے حکم امتناعی کی درخواست بھی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی۔ پنجاب حکومت کا موقف تھا کہ سنگل بینچ نے یہ فیصلہ ان کے تحریری جواب کے بغیر ہی جاری کر دیا اور رپورٹ عام نہ کرنے پر پنجاب حکومت کے خلاف پہلے ہی ایک توہین عدالت کی در خواست دائر ہو چکی ہے۔ حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ اپیل پر فیصلے تک سنگل بینچ کا حکم معطل کیا جائے۔
یہ خبر بھی پڑھیں:سماعت کرنے والا فل بنچ تیسری بار ٹوٹ گیا
واضح رہے کہ 17 جون کو پولیس نے منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے سامنے سے بیئریر ہٹانے کے لیے جو کارروائی کی تھی اس میں بیشتر زخمیوں اور ہلاک شدگان کو براہ راست گولیاں لگی تھیں۔ ابتدا میں پولیس نے ان ہلاکتوں کا مقدمہ پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج کر لیا تھا اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ کی جانب سے دی گئی درخواست پر نئی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے قبل 21 جون کو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے کہنے پر صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔