حکومتی اور سیاسی محاذ پر یوٹرن کیوں؟

Last Updated On 18 November,2018 04:25 pm

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کو در پیش فکری، سیاسی اور معاشی چیلنجز کے دوران وزیراعظم عمران خان کو حالات کے مطابق یوٹرن لینے کے عمل کو ناگزیر کیونکر قرار دینا پڑا یہ بات اعلیٰ سطح کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس پر دو طرح کی آراء کا اظہار ہو رہا ہے۔

ایک حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ بدلتے حالات میں کامیابیوں کے حصول کے لئے یوٹرن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جبکہ دوسرا حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ بدلتے حالات اور واقعات میں بیانات کی حد تک تو موقف میں تبدیلی آ سکتی ہے مگر بنیادی نظریے اور اصولوں پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بنیادی نظریہ اور اصولوں پر کمپرومائز کرنے والے زیادہ دیر سیاسی میدان میں زندہ نہیں رہتے اور ان کی حمایت کرنے والے طبقات عوامی سطح پر دفاعی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ آخر عمران خان جیسے اصولی لیڈر کو یوٹرن جیسی بے اصولی کی بات کیونکر کرنا پڑی اور کیا ایشوز پر یوٹرن لینے کے بعد انہیں مطلوبہ نتائج مل سکیں گے۔

ملک کو در پیش بحرانی کیفیت میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے جس ثابت قدمی کی توقع تھی کیا وہ قائم ہے اور اپنے اقتدار کے پہلے سو روز کے دوران کیا ان کی حکومت ٹیک آف کر پائے گی۔ وزیراعظم نے یہ گفتگو کالم نویسوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کی۔ ہمیں یہ صورتحال ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ملک میں ایک بڑا بحران ہے جس کی ایک سمت معیشت ہے، دوسری سمت سیاسی ہے اور تیسری سمت سماجی ہے۔

اس صورتحال میں عمران خان کی جماعت ان کی قیادت میں تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر آئی ہے۔ ظاہر ہے بحران بہت گھمبیر ہے اور پیچیدہ بھی۔ کیا نئی حکومت اور اس کے سربراہ کے پاس اس بحران سے نمٹنے کی صلاحیت ہے؟ اگر ہے تو پھر انہیں ہر وقت بے مقصد بیانات اور محاذ آرائی میں مزید تیل ڈالنے کے بجائے پوری یکسوئی اور خاموشی سے بحران میں سرخرو ہونے کی کوششوں کی طرف جانا چاہئے۔

سماجی سطح پر دیکھا جائے تو شور شرابا اور لڑائی جھگڑا کوئی بھی فریق اس وقت بڑھاتا ہے جب اس کے پاس اصول کی طاقت ختم ہو جائے اور آگے بڑھنے اور اپنی بات منوانے کی دلیل کم پڑ جائے۔ عمران خان صاحب کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ بے امید اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی قوم کی بظاہر آخری امید اور مسیحا کے روپ میں اپنے آپ کو عوام میں پیش کر کے آئے ہیں۔ کوئی بھی نجات دہندہ ‘ مسیحا یا ناخدا اپنی بے اصولی اور ہر دم بدلتے موقف پر اتر آئے تو پھر نا امیدی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی ہے۔

عمران خان سیاست میں کئی مرتبہ اپنا موقف بدل چکے ہیں اور وہ ایک بہتر موقف اور سطح سے مزید پیچھے ہٹے ہیں، اپنی جماعت میں سیاسی شمولیتوں اور ٹکٹوں کی تقسیم پر اور پھر اس کے بعد اقتدار نصیب ہوا تو اپنے اتحادیوں کے حوالے سے بھی انہوں نے اپنا موقف بدلا اور پھر کابینہ میں انہی پرانے آزمائے ہوئے بالخصوص کرپٹ مہروں کو بھی جگہ دی۔

اب یہ صورتحال کسی بھی لیڈر کو زیب نہیں دیتی کہ وہ ایک اصول اور جدوجہد کیلئے ہر طرح کی بے اصولی اختیار کرے۔ موجودہ صورتحال میں بھی وزیراعظم نے جتنے معاملات پر یوٹرن لئے ہیں کیا ان سے مطلوبہ نتائج ملے ہیں؟ پہلے ایک نظریہ ہوتا ہے اور پھر اس کی جدوجہد ہوتی ہے اور اس کے بعد حکمتِ عملی ہوتی ہے۔ حکمتِ عملی تبدیل بھی کی جا سکتی ہے اور یوٹرن بھی لیا جا سکتا ہے۔ بقول شاعر مشرق یہ کیفیت’’جھپٹ کر پلٹنا ،پلٹ کر چھپٹنا ‘‘کے مترادف ہے۔ مگر اس بار بار کے پلٹنے جھپٹنے میں آپ اپنی نظریاتی جدوجہد’ موقف یا اصول کو بے توقیر نہیں کر سکتے۔

اس وقت ملک میں بحران بہت بڑا ہے اور خان صاحب کے پاس مینڈیٹ بھی ہے۔ لہٰذا کام کا موقع پورا پورا موجود ہے اور اگر عمران خان اور ان کی معاشی اور سیاسی ٹیم انہیں معیشت اور سیاست کے بحران سے نکالنے میں مدد دے دیتی ہے تو پھر بہتری لازماً پیدا ہو جائے گی اور پھر بحران سماجی سطح پر ختم ہونا شروع ہو جائیگا اور اس کا مطلب ہی تبدیلی اور اس کے عوامی ثمرات ہونگے۔

عمران خان حکومت نے شروع میں بیمار معیشت کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے دوری کا عندیہ دیا تھا۔ پھر آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے اور متبادل حکمتِ عملی کے طور پر سعودی عرب اور چائنہ کا دروازہ کھٹکھٹا ڈالا۔ بہر حال اس صورتحال نے بھی اپنے نتائج دئیے اور معیشت کے ٹیک آف کرنے کی خوشخبری سننے کو ملی۔ مگر اس یوٹرن نامی حکمتِ عملی سے ہمیں یہ پتہ نہیں کہ اس قرض اور امداد کے عوض پاکستان کے پاس کیا ہے جو سعودی عرب اور چائنہ کو بدلے کے طور پر دینا پڑیگا۔

بہر حال معاشی صورتحال میں ہمیں پیڑ گننے کے بجائے آم کھانے سے غرض ہونی چاہئے۔ موجودہ صورتحال حکومت اور وزیراعظم سے ثابت قدمی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حکومت گالم گلوچ’ محاذ آرائی بڑھانے، کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے میں تو روزانہ پیچھے ہٹنے کے بجائے مکمل یکسوئی سے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے مگر ہر شعبہ میں اصلاحات کی کوشش کرنے میں حکومت سنجیدہ نہیں۔

وزیراعظم کو در حقیقت اپنے اس طرزِ عمل میں یوٹرن لینا چاہئے اور پھر ثابت قدمی سے ملک کو موجودہ بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں حکومت کے 100 دن پورے ہونے کو ہیں مگر سامنے کی صورتحال ہے کہ ملک ٹیک آف کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ملک کی معیشت ’ سیاست اور ہر حوالے سے تقسیم سماج کو آگے کی طرف لے کر جانا ہے تو پھر موجودہ طرزِ حکومت اور اندازِ سیاست سے مراجعت (یوٹرن) لینا ہوگا۔ وگرنہ ہمیں ڈر ہے کہ کرپشن کی کیمپین میں وہ سیاسی انتقام شروع ہو گا جس سے کسی اور کا نقصان تو نہیں ہو گا مگر جمہوریت اور سسٹم کا ’’واٹرلو ‘‘ثابت ہو گا.