100 دن کی کارکردگی اور حکمرانی کا بحران

Last Updated On 29 November,2018 02:34 pm

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) تحریک انصاف اور عمران خان نے انتخابات جیتنے سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ پہلے 100 دنوں میں ملک میں ماضی کے مقابلے میں بڑی تبدیلی لا کر دکھائیں گے۔ اس کیلئے حکومت میں آ کر پہلے100 دنوں کا منشور بھی پیش کیا کہ ہم کیسے غریب آدمی کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے وفاقی اور صوبائی سطح پر مختلف ٹاسک فورسز بھی قائم کیں اور خود ان کی نگرانی کا انتظام بھی سنبھالا لیکن اب اگر پہلے 100 دنوں کا جائزہ لیا جائے تو حکومتی کارکردگی پر کئی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ حکومت کی وہ کارکردگی کہاں ہے جس کے بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے لیکن پہلے 100 دنوں کی کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے پاس تبدیلی کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ یا ہوم ورک نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں تبدیلی کے حوالے سے کافی مایوسی پائی جاتی ہے۔

پنجاب میں تحریک انصاف کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے سے جو تبدیلی کی باتیں کی جارہی تھیں اس کے بھی آثار دیکھنے کو نہیں مل رہے۔ پنجاب میں طاقت کے مراکز میں رسہ کشی جاری ہے۔ وزیراعظم کو پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرنا پڑ رہی ہے اورعملًا وزیراعظم ہی پنجاب کو براہ راست کنٹرول کررہے ہیں۔ جہاں ایک طرف عوام مہنگائی سے تنگ ہیں تو دوسری طرف حکمرانی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں جس سے تحریک انصاف کی حکومت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اصل میں تحریک انصاف کو اس بات کا احساس کم تھا کہ جوسیاست وہ اپوزیشن میں بیٹھ کر کر رہی ہے اگر کل ان کو اقتدار ملتا ہے تو وہ کیا کرے گی۔ ان کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب جب وہ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنے ہیں تو اندازہ ہوا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاست میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ ابھی بھی حکومت میں شامل لوگ جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کو اس بات کا بھی احساس نہیں کہ اب وہ اپوزیشن میں نہیں اور انہیں مختلف سطحوں سمیت عوام کو بھی جوابدہ ہونا پڑے گا۔

تحریک انصاف اپنی کارکردگی سے زیادہ اس بات پر شور مچا رہی ہے کہ کیونکہ اسے جو حکومت ملی ہے وہ کافی بدحال تھی اس لیے ہمیں تبدیلی کے حوالے سے زیادہ مشکلا ت کا سامنا ہے۔ اگرچہ حکومت نے سعودی عرب، چین اورملائشیا سے بعض معاملات پر ریلیف حاصل کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی صورتحال میں بہتری لانا ہے۔

آئی ایم ایف سے بھی محض مذاکرات کا عمل چل رہا ہے اس کے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ معاشی ماہرین کے بقول جس انداز سے وزیر خزانہ اسد عمر معاشی صورتحال میں بڑی تبدیلی کے دعوے کرتے تھے اس کی کوئی شکل عوام کو دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ اصل مسئلہ معاشی بحران کا ہے اور اگر عوام کو فوری طور پر بجلی ،گیس، پٹرول اور مہنگائی کے حوالے سے ریلیف نہیں ملتا تو حکومت پر عدم اعتماد بڑھ جائے گا۔ اگرچہ حکومت نے وفاق اور صوبوں کی سطح پر عوامی مسائل کے حوالے سے مختلف ٹاسک فورسز بنادی ہیں لیکن یہ ٹاسک فورسز محض اجلاس در اجلاس ہی کر رہی ہیں۔

تحریک انصاف نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی کڑا احتساب کرے گی۔ اس پر اب تک بہت زیادہ شور مچایا جارہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر احتساب پر باتیں کرکے اپوزیشن کو ڈرایا جارہا ہے کہ احتساب ہو گا اور کسی کے ساتھ کوئی این آر او نہیں ہو گا۔

معلوم نہیں وہ کون لوگ ہیں جو اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے بڑے رہنمائوں نے حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچی ہے تو ان ناموں کو سامنے لائے جو ان سے ڈیل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت کے پاس احتساب کے حوالے سے کچھ بھی نہیں اور احتساب کا عمل مخالف سیاسی جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک حکومت کو احتساب کے حوالے سے کچھ بھی نہیں مل سکا اور جن پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اس کا نتیجہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔

تحریک انصاف نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ حکومت میں آتے ہی ملک کی لوٹی دولت واپس لائے گی۔ اس معاملے پر بھی بہت کچھ کرنے کی باتیں تو کی گئیں مگر عملی طور پر اس کے بھی نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف جو کچھ سوچ کر حکومت میں آئی تھی اس پر اس کو پہلے 100 دنوں میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کا اعتراف بعض وزراء بھی کر رہے ہیں کہ ہم نے مسائل کو سمجھنے میں غلطی کی اور یہ مسائل فوری طور پر حل نہیں ہوسکیں گے بلکہ اس کیلئے طویل وقت درکار ہے۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پہلے 100 دنوں کے بعد حکومت اپنی سطح پر موجود خامیوں کی کیسے اصلاح کرتی ہے اور مستقبل کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کرتی ہے کیونکہ ایک بات طے ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت پہلے100 دنوں میں وہ کچھ نہیں کرسکی جو وہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی ایک وجہ حکومت میں موجود ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔

دوسری جانب کرتارپور راہداری سے یقیناً کروڑوں سکھوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں ریلیف ملے گا اور وہ اس پر پاکستان کے مشکور بھی نظر آ رہے ہیں۔ یہ پیش رفت پاکستان کی جانب سے اُس وقت ہوئی جب بھارتی سابق کرکٹر اور وزیر نوجوت سنگھ سدھو وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے آئے تو پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں کرتارپور بارڈر کھولنے کا مطالبہ سامنے آیا۔ پاکستان نے اس پر پیش رفت کی، بوجوہ بھارتی کابینہ نے اس پر گرین سگنل دیدیا۔

کرتار پور بارڈر کھلنے کے عمل کو سفارتی محاذ پر ڈیڈلاک کا خاتمہ قرار دیا جا رہا تھا اور تاثر یہی تھا کہ شاید یہ عمل پاک، بھارت مذاکراتی عمل میں بحالی کا پیش خیمہ ثابت ہو لیکن ایک جانب کرتارپور کوریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان دوستی، تعلقات اور مذاکرات کی بات کر رہے تھے تو دوسری جانب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج یہ کہتی نظر آئیں کہ کرتار پور کوریڈور کھلنے کا مطلب مذاکراتی عمل کی بحالی نہیں یہ مطالبہ برسوں سے تھا اب صرف پاکستان نے مثبت ردعمل دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ دو طرفہ مذاکرات شروع ہو جائیں۔

یہاں سے پاکستان اور بھارت دونوں کی لیڈر شپ کے مائنڈ سیٹ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستان مسلسل مذاکرات کی بات اس لئے کرتا ہے کہ وہ ایشوز کے حوالے سے کلیئر ہے اور مذاکرات کیلئے آگے وہی بڑھتا ہے جس کے ذہن میں مسئلے کا کوئی حل ہو، بھارت اس سے گریزاں اس لئے ہے کہ ان کا ان ایشوز پر کوئی کیس نہیں۔ خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی بد ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے اس کے چہرے کو مسخ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ مذاکرات کی میز پر آنے سے گریزاں ہے۔

لہٰذا پاکستان کی جانب سے اس واضح اعلان کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی جانب سے مثبت جواب کا انتظار کیا جائے نہ کہ مذاکرات کی رٹ لگا کر یہ تاثر دیا جائے کہ شائد ہم اس کیلئے بے چین ہیں۔ پھر بہت سے سوالیہ نشانات کھڑے ہوں گے کیونکہ سیاسی حلقوں میں تو بہت پہلے سے ہی کچھ تبصرے اس انداز سے جاری ہیں کہ شکر ہے کہ یہ عمل عمران خان کی حکومت میں ہوا نواز شریف کی حکومت میں ایسا ہوتا تو ملک غیر محفوظ ہونے اور قومی مفادات پامال ہونے کی گردان سنی جاتی۔