افغان مفاہمتی عمل، بریک تھرو ممکن؟

Last Updated On 09 January,2019 09:30 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) افغانستان میں امن کیلئے مفاہمتی عمل کا سلسلہ جاری ہے، افغان صدر کے نمائندے عمر داؤد زئی پاکستان کے دورہ پر ہیں جہاں ان کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی ہے اور ملاقات میں افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کے ساتھ یہ عزم ظاہر کیا گیا کہ بات چیت کے ذریعے حل ہی دیر پا اور نتیجہ خیز ہوگا۔

کور کمانڈرز کانفرنس میں مشرقی و مغربی سرحدوں کی صورتحال خصوصاً پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب، جاری منصوبوں پر پیش رفت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نتیجہ خیزی پر تبادلہ خیال ہوا۔ لہٰذا مذکورہ سرگرمیوں کی روشنی میں بنیادی سوال یہ ہے کہ افغان مفاہمتی عمل کس حد تک پائیدار ثابت ہوگا ؟ طالبان افغان انتظامیہ سے بات چیت پر کیونکر تیار نہیں۔ مذکورہ عمل میں پاکستان کا کردار کیا ہے ؟۔ کیا مفاہمتی عمل کو خطہ میں موجود دیگر طاقتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔ اب تک کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ افغان مسئلہ پر بہت حد تک برف پگھلی ہے اور افغان مفاہمتی عمل کو امریکہ سمیت بعض دیگر قوتوں کی تائید و حمایت حاصل ہے کیونکہ مسئلہ اب محض افغانستان کا نہیں بلکہ اس میں خطہ سمیت باہر کی طاقتوں کے مفادات بھی منسلک ہیں اور وہ مفاہمت چاہتے ہیں مگر سب اس مفاہمتی عمل کو اپنے اپنے دائرے میں دیکھ رہے ہیں۔

یہ مفادات اور خصوصاً مفاہمتی عمل کس حد تک کامیاب ہوگا فی الحال یہ بات حتمی طور پر نہیں کی جا سکتی البتہ اسے اچھی شروعات ضرور قرار دیا جا سکتا ہے اور اس سارے عمل میں کلیدی کردار پاکستان کا ہے کیونکہ پاکستان افغان مسئلہ کو جہاں خطے کا مسئلہ سمجھتا ہے وہاں افغانستان میں امن کو براہ راست پاکستان کے داخلی استحکام سے جڑا ہوا پاتا ہے اس لئے پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ اس حوالے سے کاوشیں کامیاب ہوں اور مفاہمتی عمل کے نتیجہ میں ایسا فارمولا طے پا جائے جو مثبت بھی ہو، فیصلہ کن بھی اور اچھی بات یہ سامنے آئی ہے کہ اب عالمی قوتیں پاکستان پر اعتماد کر رہی ہیں اور سمجھ رہی ہیں کہ پاکستان کو باہر نکال کر افغان مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا مفاہمتی عمل میں بنیادی کردار ہے، پہلے مرحلے پر یہ مذاکرات متحدہ عرب امارات میں ہوئے۔

طالبان افغان انتظامیہ کو ساتھ بٹھانے کیلئے تیار نہیں غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے بات چیت کا عمل کارگر ہوتا ہے تو اس پر عمل درآمد ہوگا کیونکہ وہ افغان انتظامیہ کو امریکہ کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں ان کے اس حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال مفاہمتی عمل کے حوالے سے بریک تھرو ممکن نہیں لیکن اعتماد کا ماحول ضرور بنا ہے جس پر مفاہمتی عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ جہاں تک افغان حکومت کے اس عمل میں کردار اور مسائل کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ افغان انتظامیہ نہ تو امریکی امداد کے بغیر کھڑی رہ سکتی ہے اور نہ ہی امریکی انخلاء کے بعد اشرف غنی انتظامیہ کا محض اپنے سہارے یہاں قائم رہنا ممکن ہوگا البتہ اس صورتحال میں افغانستان بھارت گٹھ جوڑ اور خود بھارت کے مفادات کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا کیونکہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کا کردار بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے جو کسی طور پر بھی بھارت ہضم نہیں کر پائے گا اور اس کی اس حوالے سے بد نیتی افغان انتظامیہ کے ذریعہ ہی کارگر ہو سکتی ہے۔

بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاکستان کی کوششوں کے باعث ایسا کوئی فارمولا طے نہیں پانا چاہئے جس سے امن کی راہ ہموار ہو کیونکہ اس سے پاکستان کے اثر و نفوذ اور اہمیت و حیثیت بڑھے گی اور خود افغان انتظامیہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پاکستان دشمنی کے ایجنڈا پر گامزن ہیں اور اشرف غنی انتظامیہ میں اہم اور حساس عہدے خصوصاً انہیں دئیے گئے جن کے بھارت سے روابط گہرے تھے اور وہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کی کوششوں، کاوشوں سے یہاں امن عمل آگے بڑھے لیکن افغان طالبان بھی اگر امریکیوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوئے ہیں تو یقیناً انہوں نے کچھ طاقتوں سے گارنٹی لی ہوگی کہ جو بھی فیصلے ہوں گے ان پر اس کی سپرٹ کے مطابق عمل درآمد ہوگا۔ افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے پاکستان کا کھلا اور ڈھکا کردار دنیا دیکھ رہی ہے اور اگر اس حوالے سے کوئی بڑا بریک تھرو ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کی علاقائی اہمیت اور بین الاقوامی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔
 

Advertisement