ن لیگ کی قیادت کیلئے اچھے دن

Last Updated On 27 March,2019 09:19 am

لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ) پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بڑی ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے رہائی مل گئی، سپریم کورٹ کے حکم سے تھوڑی دیر پہلے لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا، اس طرح مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ ایک بہتر ماحول میں آگئی، ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ کو فی الحال قرار آجائے گا۔

نواز شریف کو سپریم کورٹ سے 6 ہفتے کی ضمانت مل گئی، نواز شریف کی مجموعی صورتحال اس سے کہیں بہتر ہے جو 8 ماہ پہلے تھی، نواز شریف ہر لحاظ سے ایک آرام دہ زون میں داخل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ دوسری جانب شہباز شریف آشیانہ ہاؤسنگ اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں، لیپ ٹاپ سکیم کیس میں نیب کو ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا جبکہ انسپکٹر عابد باکسر سے متعلق شہباز شریف پر الزامات ختم ہو چکے ہیں، پرسوں ہی لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لئے بننے والی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا ہے یہ بھی ایک خطرہ شہباز شریف کے حوالے سے موجود تھا، گویا مجموعی طور پر شہباز شریف کے لئے حالات انتہائی سازگار ہو رہے ہیں وہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں، منسٹرز انکلیو میں وہ رہتے ہیں۔ وہ اب آزاد ہیں۔ بیرون ملک بھی جاسکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی نواز شریف رہا ہوچکے ہیں اور ان کے لئے بھی ماحول میں بہت بہتر صورتحال پیدا ہو چکی ہے، یہ ہر لحاظ سے شریف برادران اور ن لیگ کے لئے بہت اچھی خبر ہے۔

سپریم کورٹ میں نواز شریف کی درخواست کی سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس سے کئی مواقع پر ایسا لگ رہا تھا کہ درخواست ضمانت مسترد ہو جائے گی لیکن فیصلہ ابتدائی اندازوں کے برعکس آیا، اس حوالے سے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جہاں کہیں گے وہاں بیٹھیں گے جیسا کہو، ویسا مانیں گے۔ انھوں نے بتایا جسٹس آصف سعید کھوسہ میرے آئیڈیل چیف جسٹس ہیں، میں نے پاناما کیس میں دیکھا ہے کہ وہ ایک وژن رکھتے ہیں، دیوار کے پار بھی دیکھ سکتے ہیں، نواز شریف ایک ماہ سے روزانہ اس ہسپتال سے دوسرے ہسپتال آ جا رہے تھے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف کو عدالت سے سزا ہوئی ہے لیکن وہ سزا کاٹنے کی پوزیشن میں نہیں، وہ شرمندہ بھی نہیں ہیں، قوم سے معافی بھی نہیں مانگ رہے، میں شریف خاندان اور آصف زرداری فیملی کو سیاست سے فارغ سمجھتا ہوں، شریف خاندان چلمن کے پیچھے بھیک مانگتا رہا۔ میں چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ منسٹرز کالونی سے حرکات ہو رہی ہیں۔ یہ اقتدار کے بھوکوں کا ایک جمعہ بازار ہے، وہ اپنے کسی بیانیہ یا کوشش پر شرمندہ نہیں ہوتے۔

شیخ رشید نے کہا کہ یہ راہ نکالنے کے لئے شہباز شریف ماسٹر مائنڈ ہیں، وہ چھاتی کے ساتھ لگا کر تاش کھیلتے ہیں، شہباز شریف نے بہت عرصہ سے ایک "موو" کی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے آج نئی آئینی و قانونی اصطلاح نکالی ہے، اس قسم کا فیصلہ شاید پہلے نہیں آیا۔ اس کے پیچھے یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان 5 سال پورے کریں گے، انھوں نے بتایا کہ میں دن گن رہا تھا کہ نواز شریف کو دوبارہ جیل جانا پڑا تو پہلا روزہ ہوگا، میرا خیال تھا رمضان میں ضمانت ہوتی، رمضان میں جیل میں ہونا اتنی اچھی بات نہیں، دو قسم کے سیاستدان ہیں ایک سیاستدان اپنی بیماری چھپاتے ہیں دوسرے عدالت میں خدا کا واسطہ دیتے ہیں میں نے نواز شریف کے ساتھ وقت گزارا ہے وہ بہادر بنتے ہیں لیکن بے انتہا بزدل ہیں، انھوں نے کہا کہ عمران خان نے بغیر پوچھے میرا نام پی اے سی میں ڈالا تھا۔ میں اس کمیٹی میں شہباز شریف کی وجہ سے جا رہا تھا۔ ان کو پی اے سی کا چیئرمین نہیں ہونا چاہئے تھا۔

اس سوال پر کہ کیا اس قسم کا معاملہ آصف زرداری، فریال اور بلاول سے بھی طے ہوسکتا ہے، شیخ رشید نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کا ہزار ارب روپے کا کیس ہے۔ نواز شریف اور شہباز نیب کو 5 روپے نہیں دیں گے۔ آصف زرداری واپس کرسکتے ہیں اگر کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو وہ لین دین کرسکتے ہیں۔ شریف برادران صرف پیسے کمانا جانتے ہیں لیکن آصف زرداری پیسے کمانا اور خرچ کرنا جانتے ہیں، شیخ رشید نے وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے کہا کہ عمران خان کے علاوہ پی ٹی آئی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی ایسے چہرے ہیں جو کونسلر نہیں بن سکتے۔ پی ٹی آئی اللہ کے بعد عمران خان کی مرہون منت ہے۔ یہ وزیر ہلکی پھلکی موسیقی کرتے ہیں ان میں اتنی جرأت نہیں ہے، جتنی بحث عمران کی کابینہ میں ہوتی ہے اتنی کسی کابینہ میں نہیں دیکھی، بعض اوقات لوگ حاضری لگانے کے لئے فضول بحث بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اگلے ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف کی بیماری کا مذاق اڑایا گیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ حق سچ کی فتح ہے۔ ان کا کہنا تھا نواز شریف کیس کی مثال آمرانہ دور میں بھی نہیں ملتی۔ حکومت میں جمہوری روایات، انسانی اقدار اور ظرف نہیں ہے۔ عدالتیں تب ریلیف دیتی ہیں جب کوئی راستہ نہ نکلے۔ پہلی ترجیح نواز شریف کا علاج ہے ،نواز شریف کو عوام کے دلوں سے نکالنا مشکل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ نواز شریف کے دل کا مرض معمولی نہیں ،ہم اپوزیشن برائے اپوزیشن نہیں کریں گے۔ نواز شریف گھر میں رہیں گے یا ہسپتال جائیں گے یہ فیصلہ ڈاکٹر کریں گے، انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزرا اسمبلی فلور پر جھوٹ بولتے ہیں، نیب کا کالا قانون ہے لیکن جب بھی طلب کیا گیا تو پیش ہوں گے۔ ای سی ایل پر ڈالنا ہے تو شوق سے ڈالیں، توقع ہے حکومت شرمندہ ہوگی اور غلطیوں سے سبق حاصل کرے گی۔

معروف تجزیہ کار اور سینئر صحافی عامر احمد خان نے اس صورتحال کے حوالے سے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ ن لیگ کی قیادت کے لئے ماحول میں بہتری آئی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتری حکومت بالخصوص وزیر اعظم عمران خان کے لئے آئی ہے، وزیر اعظم کو حالات کی جانب سے ایک موقع ملا ہے وہ ملکی سیاست کو بند دروازوں کی طرف دھکیل رہے تھے۔ حکومت کے لئے ضروری ہے سب ان کے ساتھ ملکر بیٹھیں لیکن عمران خان کا رویہ نہیں بدلا اور وہ دو بڑی جماعتوں کی قیادت کو نشانہ بنا رہے ہیں آج کی پیش رفت سے زیادہ فائدہ حکومت کو ہوگا، اگر وزیر اعظم اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں۔ انھوں نے خود کو ایک کارنر میں محدود کر لیا تھا آج ان کو اچانک ایک راستہ مل گیا ہے ان کو اس چھ ہفتے کی مدت کا فائدہ اٹھانا چاہئے، کسی کو ان کے احتساب ایجنڈا پر اعتراض نہیں لیکن جن قوانین کے تحت یہ احتساب کا عمل ہورہا ہے اس پر کوئی متفق نہیں، ہر شخص سمجھتا ہے اس میں بہت سی خرابیاں ہیں، عمران خان کو یہ سنہری موقع ملا ہے، عمران خان اب ان دروازوں کو کھول سکتے ہیں جو انھوں نے بند کر رکھے ہیں۔ اس دوران کسی بریک تھرو کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے آصف زرداری سے رابطے بھی حکومت کی ضرورت ہے پاکستان کی خاطر اپوزیشن کی نسبت یہ حکومت کی زیادہ ضرورت ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتساب کے عمل کو روک دیا جائے قانون میں تبدیلی کر کے یہ عمل چلایا جاسکتا ہے نیب کا متنازعہ قانون اگر متفقہ قانون بن جائے تو پہلے سے زیادہ پیش رفت ہوگی ،ان کو ایک دوسرے کی سیاسی ضرورت ہے اور دوررس سیاسی تبدیلیاں لانے کے لئے مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ فی الحال مجھے ماحول میں بنیادی تبدیلی نظر نہیں آرہی، سیاسی ماحول میں جمود ہے اور یہ جمود ہمیں کہیں پر ٹوٹتا ہوا نظر نہیں آرہا۔