خورشید شاہ میٹر ریڈر سے رکن پارلیمنٹ تک

Last Updated On 19 September,2019 08:48 am

لاہور: (بی بی سی) قومی احتساب بیورو نے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو آمدن سے زیادہ اثاثوں کے مقدمے میں گرفتار کیا ہے۔ خورشید شاہ پر پٹرول پمپ، مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بنگلوں کی تعمیر اور ہوٹلوں کے علاوہ بے نامی کاروبار کے الزامات شامل ہیں۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ خورشید شاہ کو اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ سے گرفتار کیا گیا۔

خورشید شاہ کون ہیں ؟ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ پر جب بھی مخالفین نے تنقید کی تو ان کے ماضی کو ہمیشہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور انھیں میٹر ریڈر ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا۔ خورشید شاہ زمانہ طالب علمی سے لیکر قومی سیاست کے کئی نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے روایتی سیاستدانوں کے گھرانوں سے نہیں بلکہ سیاست میں انھوں نے اپنے بل بوتے پر نام اور مقام بنایا۔ خورشید شاہ کی پیدائش سکھر میں ہوئی، سیاست میں دلچسپی ان کی زمانہ طالب علمی سے رہی، 1970 میں وہ اسلامیہ سائنس کالج میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر بنے، بلدیاتی انتخابات میں کونسلر منتخب ہوئے لیکن کچھ ہی عرصے بعد واپڈا میں میٹر ریڈر کی ملازمت اختیار کرلی، خورشید شاہ نے سیاست کو ترجیح دی اور میٹر ریڈر کی ملازمت سے مستعفی ہوگئے۔ وہ پیپلز پارٹی کے سٹوڈنٹس ونگ سپاف (سندھ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن) میں سرگرم ہوگئے اور تحریک بحالی جمہوریت تک وہ صوبائی سطح کی کوئی شخصیت نہیں تھے۔

1988 کے انتخابات میں جب پارٹی کارکنوں کو بھی ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا تو اس میں خورشید شاہ کا بھی قرعہ نکل آیا اور وہ سکھر سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ صوبائی حکومت میں انہیں ٹرانسپورٹ اور تعلیم کے قلمدان دیئے گئے۔ 1990 کے انتخابات میں وہ سکھر سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد سے 2018 کے انتخابات تک مسلسل 7 مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ 2002 کے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی سے بھی امیدوار تھے اور پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے امیدواروں میں بھی ان کا شمار کیا گیا لیکن ان کا نامزدگی فارم مسترد ہوگیا جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر منتخب کیا گیا۔ جب بینظیر بھٹو خود ساختہ جلا وطنی میں تھیں تو اپوزیشن لیڈر کے فرائض انھوں نے انجام دیئے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ اوورسیز پاکستانی اور مذہبی امور کے وزیر رہے۔

خورشید شاہ قومی سطح کی سیاست میں پارٹی کے اندر رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے پارٹی کے دانشور گروپ کے قریب رہے، پارٹی کی بیک ڈور ڈپلومیسی میں بھی ان کا نام سامنے آتا رہا۔ دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات رہے۔ نگران حکومت سے لیکر چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تک، ان سب میں حزبِ اختلاف کے قائد کے طور پر اپنا کردار ادا کیا۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد خورشید شاہ کے مختلف موقعوں پر پارٹی رہنماؤں سے اختلافات سامنے آئے۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور ان کے درمیان عوامی سطح پر اختلافات 2010 کے سیلاب کے وقت اس وقت سامنے آئے جب سیلاب کا پانی دریائے سندھ کو کٹ لگا کر صحرا کی طرف موڑنے کی تجویز آئی۔ اس کے علاوہ ڈویژن اور ضلع کی سطح پر افسران کی تعیناتی اور تبادلوں میں ان سے مشورہ نہ ہونے پر بھی وہ اظہار ناراضی کرتے رہے۔ سکھر کی سطح پر پارٹی سیاست میں اسلام شیخ کی آمد نے انھیں شہری سیاست سے سکھر کی دیہی سیاست تک محدود کر دیا۔ اسلام الدین شیخ آصف علی زرداری کے قریب رہے اور ٹکٹوں کی تقسیم پر دونوں کے درمیان بیان بازی ہوتی رہی، لیکن اس کے باوجود خورشید شاہ کے داماد اویس شاہ اور بیٹے فرخ شاہ رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔

خورشید شاہ کے صحافیوں سے ہمیشہ اچھے مراسم رہے۔ ان کا آبائی شہر سکھر ہو یا اسلام آباد، دونوں جگہ صحافی ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سندھ میں جہاں دیگر سیاست دان تنقید کی زد میں رہتے ہیں وہاں خورشید شاہ کا نام شاذ و نادر ہی سامنے آیا ہے۔ خورشید شاہ نے اپنے سیاسی سفر میں قید و بند کی صعوبتوں کا بہت کم عرصہ سامنا کیا۔ تحریک بحالی جمہوریت کے دوران وہ مختصر وقت کے لیے گرفتار ہوئے اور جب 2007 میں بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں اور ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا جس میں بینظیر بھٹو کو گھر میں نظر بند کیا گیا تو خورشید شاہ ان کے ہمراہ تھے۔ 50 برس کے سیاسی کیریئر میں انھوں نے سیاسی میدان میں شہرت اور دولت دونوں ہی حاصل کیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں دونوں مرتبہ گرفتاریاں سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پر تھیں اس مرتبہ وہ کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔