شہباز شریف کی ہنگامی پریس کانفرنس، بنیادی مقصد کیا تھا ؟

Last Updated On 05 December,2019 08:40 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اپنے بڑے بھائی سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاج کیلئے لندن میں مقیم مسلم لیگ ن کے صدر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ایک وقفہ کے بعد ملک کے اندر پیدا شدہ صورتحال اور ملکی سیاسی حالات پر اپنے سیاسی کیس کا کھل کر اظہار کیا، ان کی پریس کانفرنس میں ان کا ٹارگٹ وزیراعظم عمران خان، ان کی پالیسیاں اور اقدامات تھے جس میں انہوں نے ان کے سیاسی کردار پر سخت تنقید کرتے ہوئے ان ہاؤس تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا یہ جتنی جلد کر لی جائے ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ جبکہ انہوں نے ملک میں جاری احتسابی عمل کو نیب نیازی گٹھ جوڑ کا نتیجہ قرار دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعتاً حالات ان ہاؤس تبدیلی کیلئے سازگار ہیں ؟ کونسی وجوہات کی بناء پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے ؟ کیا ڈیڈ لاک ٹوٹ پائے گا ؟ ن لیگ کا اعلیٰ سطحی وفد لندن جا رہا ہے ، مقاصد کیا ہیں ؟ اہم معاملات بارے قانون سازی ممکن ہو پائے گی ؟۔

جہاں تک میاں شہباز شریف کی ہنگامی پریس کانفرنس اور اس کی اہمیت کا سوال ہے تو بنیادی طور پر تو پریس کانفرنس کا مقصد عدالت عظمیٰ میں آشیانہ اسکیم کے حوالے سے ان کے کردار پر چیف جسٹس کے ریمارکس تھے جس میں انہوں نے کہا کہ میں شہباز شریف کے کردار کو اچھے بچے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا نیب کا مؤقف ہے کہ بدعنوانی کی کوشش کی گئی، نقصان ہوا نہیں تو پھر کیس کا کیا جواز۔ دراصل شہباز شریف چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر حکومت اور نیب کو ایکسپوز کرنا چاہتے تھے اور ان کا زیادہ زور بھی اس پر تھا۔ ایک جانب سپریم کورٹ کی جانب سے شہباز شریف کیلئے اچھے بچے کے ریمارکس آ رہے تھے تو دوسری جانب نیب کی جانب سے شہباز شریف، ان کے بچوں کے اثاثے منجمد کرنے کا اعلان آ گیا اور کہا گیا کہ اقدامات پر اعلان پندرہ روز میں ہوگا۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک ڈائیلاگ میں تبدیل ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اس صورتحال میں وہی قوتیں کارگر ہو سکتی ہیں جو ماضی میں ایسی صورتحال میں ہوتی آئی ہیں۔ البتہ ن لیگ کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورہ لندن کو اہم قانون سازی اور مجوزہ ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر، ایاز صادق، سینیٹر پرویز رشید، مریم اورنگزیب پر مشتمل وفد کا چناؤ ظاہر کر رہا ہے کہ دورہ اہم ہے۔ مشاورت معنی خیز ہے۔ البتہ جہاں تک ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن کی بات ہے تو حقائق یہی ہیں کہ اس میں صرف اراکین اسمبلی کی اکثریت ہی درکار ہونا کافی نہیں۔ اس میں اور عوامل اور اشارے بھی درکار ہیں ورنہ سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ناکام رہی تھی۔ لہٰذا آنے والے چند دنوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں دباؤ میں نظر آئیں گے۔

حکومت پر ان ہاؤس تبدیلی کا دباؤ ہوگا اور اپوزیشن کو کچھ اہم قانون سازی پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاں تک شہباز شریف کے سیاسی کردار کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی کی حکومت کو اصل خطرہ شہباز شریف سے ہے کیونکر ان کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں عام رائے یہی ہے کہ وہ اداروں سے اچھی راہ و رسم رکھنے کی وجہ سے راستہ بنانا جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے آشیانہ سکیم کے حوالے سے ان کیلئے اچھے بچے کے ریمارکس کو حکومت ہضم نہیں کر پائی اور وفاق اور پنجاب کے وزاراء اطلاعات ان پر گرجتے برستے نظر آ رہے ہیں اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان کے خلاف عدالت عالیہ ضمانت کے بعد مزید مقدمات کی تیاری بھی ہو رہی ہے۔

مذکورہ صورتحال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات طے پاتے نظر نہیں آ رہے اور اگر اس اہم مرحلہ پر قانون سازی جیسے سنجیدہ عمل پر بھی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹرینز کے درمیان اتفاق نہیں ہو پاتا تو پھر سسٹم کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکے گی۔ جب تک اہم قومی ایشوز اہم امور پر قانون سازی کے عمل اور آئینی حیثیت کی حامل نامزدگیوں پر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ڈیڈ لاک ختم نہیں ہوتا نہ تو ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور نہ ہی معاشی حوالے سے ہم آگے جا سکیں گے اور یہ امر جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے اچھا نہیں ہوگا۔
 

Advertisement