بقا کا بجٹ: حسن عسکری، کوئی نئی سوچ نہیں: ایاز امیر

Last Updated On 13 June,2020 11:41 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے بجٹ پیش کر دیا، بجٹ کے سیاسی سطح پر کیا اثرات ہوں گے، کیا زراعت کیلئے 10 ارب روپے کے فنڈز کافی ہیں، بجٹ کے موقع پر اپوزیشن کا طرز عمل جمہوری تھا ؟ کیا مسائل بڑھیں گے یا کم ہوں گے ؟۔

اس حوالے سے پروگرام  تھنک ٹینک  کی میزبان سیدہ عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا بجٹ میں وہی گھسی پٹی باتیں ہیں، زراعت نے اہداف پورے کیے لیکن زراعت کو جو دینا چاہیے تھا وہ نہیں دیا گیا، ایسا کچھ نہیں کیا گیا کہ پاکستان کو نئی سمت میں ڈالا جاسکے، تحریک انصاف کے پاس کوئی نئی سوچ نہیں، کوئی نیا آئیڈیا نہیں، ان سے پہلے والوں کی سوچ بہتر تھی۔

روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ بجٹ کو اتنا سنجیدگی سے لینا چاہیے جتنا ارکان اسمبلی لیتے ہیں، 95 فیصد ارکان بجٹ کتابوں کو کھول کر نہیں دیکھتے، بجٹ افسران بناتے ہیں، ارکان اسمبلی اس سے لاتعلق رہتے ہیں، اس سال بھی روایتی تماشا لگا کر نعرے بازی کی گئی ہے، اس بجٹ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے، لوگوں کی بجٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، صرف سرکاری ملازمین کو تنخواہ بڑھنے کی امید تھی وہ نہیں بڑھی، حکومت کو یہ کرنا پڑے گا۔

ماہر سیاسیات ڈاکٹر سید حسن عسکری نے کہا کہ یہ بجٹ سروائیول کا ہے، یہ بجٹ ٹرانزیشن کا ہے، ریوائیول کا بجٹ نہیں کہہ سکتے، احساس پروگرام کیلئے کچھ پیسے رکھے گئے، اگر ہم کورونا کی صورتحال سے نکل سکے تو دیگر شعبوں کے بجٹ کو بھی ڈائیورٹ کرنا پڑے گا۔

اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیوروچیف خاور گھمن نے کہا کہ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کا احتجاج نئی بات نہیں، امریکا میں اس وقت معاشی ڈپریشن ہے، برطانیہ والے کہہ رہے ہیں کہ تین سو سالہ تاریخ میں ایسا معاشی دباؤ نہیں دیکھا، یورپ میں بھی معیشت سکڑ رہی ہے، اس بجٹ میں نیا ٹیکس نہیں لگا، اخراجات منجمد کئے گئے ہیں، ایوان صدر ،وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات کنٹرول کیے گئے، اب ہم بحران کے درمیان میں ہیں کوئی بھی اس کا صحیح تخمینہ نہیں لگا سکتا، ہوسکتا ہے کچھ عرصہ بعد کوئی نیا بجٹ پیش کرنا پڑ جائے۔
 

Advertisement