اسلام آباد: (دنیا نیوز) دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کی واٹر، فوڈاور انرجی سکیورٹی کیلئے اہم منصوبہ ہے، منصوبے پر مجموعی طور پر 14سو ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا اور غازی بروتھا سمیت دیگر پن بجلی گھروں کی سالانہ پیداوار پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار تھا تاہم موجودہ حکومت نے اپنی ترقیاتی حکمت عملی میں پانی اور پن بجلی کے وسائل کو ترجیح قرار دیتے ہوئے اِس اہم منصوبے کی تعمیر کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اس کی تعمیر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
دیامر بھاشا ڈیم دوسرا کثیر المقاصد ڈیم ہے۔ یہ منصوبہ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم سے تقریباً 315 کلومیٹر بالائی جانب جبکہ گلگت سے تقریباً 180 کلو میٹر اور چلاس شہر سے 40 کلو میٹر زیریں کی جانب تعمیر کیا جا رہا ہے۔ دیامربھاشا ڈیم کے تین بنیادی مقاصد ہیں جن میں زرعی مقاصد کیلئے پانی کا ذخیرہ، سیلاب سے بچاؤ اور کم لاگت پن بجلی کی پیداوار شامل ہیں۔ پن بجلی گھروں سے ہر سال ڈھائی ارب یونٹ اضافی بجلی حاصل ہوگی۔
1974 میں اپنی تکمیل کے بعد تربیلا ڈیم پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی عمر میں مزید 35 سال کا اضافہ ہوجائے گا۔ یہ پراجیکٹ مقامی لوگوں کیلئے بھی ایک نعمت ثابت ہوا ہے۔ سماجی ترقی کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت 78 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
واپڈا کے مطابق دیا مر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے کنسلٹنسی سروسز کا 27 ارب 18 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کا ٹھیکہ دیا مر بھاشا کنسلٹنٹس گروپ نامی اشتراک کار کو دیا گیا ہے۔ اس کنسلٹنٹ گروپ میں 12 کمپنیاں شامل ہے، جن کی مرکزی کمپنی نیسپاک ہے۔ 175 ارب روپے ڈیم کے لیے زمین حاصل کرنے اور ان کی ادائیگیوں، متاثرین کی آباد کاری اور مقامی ترقی کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔
791 ارب روپے دیامر بھاشا ڈیم کے لیے پاور حاصل کرنے اور دیگر ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 480 ارب روپے تانگیر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے مختص ہیں۔ پاکستان دیا مر بھاشا ڈیم کو بجلی اور پانی کی ضرورت کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ 60 کی دہائی کے بعد اب تک پاکستان نے کوئی بھی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا ہے۔
واپڈا کے مطابق اس منصوبے سے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ڈی آئی خان کا 6 لاکھ ایکڑ کا رقبہ قابل کاشت ہو جائے گا بلکہ مجموعی طور پر 3 ملین ایکڑ زرعی رقبہ بھی سیراب ہو سکے گا۔ ڈیم دریائے سندھ کے پانی کا قدرتی بہاؤ استعمال کرتے ہوئے اس پانی کا 15 فیصد استعمال کرے گا۔
ڈیم کی تعمیر سے 30 دیہات اور مجموعی طور پر 2200 گھرانے جن کی آبادی کا تخمینہ 22 ہزار لگایا گیا ہے متاثر ہوں گے جبکہ 500 ایکڑ زرعی زمین اور شاہراہ قراقرم کا سو کلومیٹر کا علاقہ زیرِ آب آئے گا۔ ان نقصانات کی تلافی اور متاثرہ آبادی کی آباد کاری کے لیے 9 مختلف منصوبے شروع کیے جائیں گے۔