نئی نسل کا نئی ٹیکنالوجی سے مقابلہ

Published On 26 November,2020 06:23 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) ہاورڈ یونیورسٹی کے ڈیوڈ کوسری، اینڈرویو مارکس اور مارکس سٹریکس کے مطابق دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، مستقبل مصنوعی ذہانت کا ہے لیکن انہوں نے اپنے مقالے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا نئی نسل وہ مصنوعی ذہانت کے بعد ان سے کام لینے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

ہاورڈ کے ماہرین کے مطابق نئی نسل مصنوعی ذہانت سے کام لینے کی اہل نہیں ہیں۔ اس میں کئی پیچیدگیاں ہیں، مثلاً اگر مصنوعی ذہانت کو کوئی کمانڈ دے کہ آپ مجھے اورنج کلر میں تمام سلیبرٹیز کی تصاویر دکھائی جائیں تو مصنوعی ذہانت ایک ملی سیکنڈ کے ایک حقیر سے حصہ میں لاکھوں تصاویر تلاش کر لے گی۔

اس کی کیٹگریز بنائی جائیں گی کہ کون ڈریسز بالکل اورنج ہیں اور کون سی کم اورنج ہیں یا کون ڈریس 50 فیصد فٹ ہیں۔ اس نئے نظام سے کام لینے کے لیے کیا ہماری نئی نسل میں صلاحیت ہے؟
ہاورڈ یونیورسٹی کے مطابق نوجوانوں میں کئی کمیاں ہیں۔ ان ماہرین کے آج کل دی جانے والی کمپیوٹر کی تعلیم امریکہ میں اپ ڈیٹ نہیں ہے۔ 40 فیصد امریکی سکولوں میں کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے، باقی 60 فیصد سکولوں میں کمپیوٹر کی تعلیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔

پروگرامنگ سے نابلد یہ طالب علم اے ون ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی ذہانت سے بھلا کیسے کام لے سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی ہمیں ہمارے کورسز کو اپ ڈیڈ کرنے کی کوشش ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ کا نصاب ہمارے ہاں بوسیدہ ہے۔ اس نظام کو زیادہ اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ فی الحال نہیں کیا جا رہا۔

ہاورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق ہماری نئی جنریشن میں اپنے مقابلے پر آنے والی مصنوعی ذہانت کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مصنوعی ذہانت صرف آلات نہیں ہیں، یہ وہ پرزے نہیں ہیں جن سے ٹھک بجا کر کام لیا جا سکے۔ یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینیں ہیں ،آپ کے پارٹنر ہیں، آپ ساتھی ہیں،ان سے کیسے کام لینا ہے، اس کیلئے ایڈوانس تعلیم کی ضرورت ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں کمپیوٹر کی تعلیم کے خواہش مندوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی کمپیوٹر کے اے پی سی ایس ۔ اے کے بعض ٹیسٹوں میں ایک لاکھ سے کم طالب علم شریک ہوتے ہیں۔ یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن کمپیوٹر کے دوسرے طالب علموں کے مقابلے میں 20-22فیصد ہے ۔ کمپیوٹرسے متعلق گریجوایشن کی سطح کے ایک ٹیسٹ میں سوا 3لاکھ طالب علموں نے شرکت کی۔

ہاورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق ایک تہائی امریکی ریاستو ں میں گریجوایشن کی سطح پر کمپیوٹر کے کریڈٹ ہی کنٹرول نہیں کیے جاتے ۔ امریکہ میں کمپیوٹر کی تعلیم کا یہ معیار کئی پسماندہ ممالک سے بھی برتر ہے۔

مثلاً اسرائیل نے کمپیوٹر سائنس کو کالج کیلورم کا حصہ بنا دیا اور برطانیہ نے اس سمت میں بہت پیش رفت کی ہے ذرا دیر سے ہے لیکن ہے ٹھیک ۔ انہوں نے سکول کی سطح پر کمپیوٹر پروگرام شروع کیے ہیں جرمنی اور روس امریکہ سے آگے ہیں۔ سابق صدر اوبامہ نے کمپیوٹر کی تعلیم سب کیلئے پروگرام شروع کیا۔

یہ صحیح سمت میں بہتر قدم تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اس پروگراموں پر کئی طرح کی کٹوتیاں کر دیں۔ لیکن یاد رکھے سکول کی سطح پر کمپیوٹر کی تعلیم کے طالب علم کو آگے چل کر انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ پھر ہمیں زیادہ سے ز یادہ طلبہ کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ کمپیوٹر سائنس کو کیرئیر کے طور پر اپنانا چاہیے۔

میرے لیے یہ بات انتہائی پر جوش ہے کہ گزشتہ فعال سیزن میں کلاس میں داخلہ لینی والی 50فیصد طالبات تھیں۔کمپیوٹر کے شعبے میں خواتین اور اقلیتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ انجینئرنگ ٹیکنالوجی بھی ایک اہم موضوع ہے۔آج جوکچھ ہم پڑھائیں گے اسی سے مستقبل میں کامیابی کا اندازہ ہوگا۔ ہمارے ہاں اکثر کورسز 1990ء کی دہائی کے ہیں۔ جو اب بہت بنیادی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ کمپیوٹر سائنس کی بنیادی تعلیم ہے۔ مگر اب ہمیں اس سے بہت آگے بڑھنا چاہیے۔ کسی پروگرامنگ کورس کو ڈویلپ کرنا ایک بڑا مشکل اور دلچسپ کام ہے۔ مثال کے طور پر نیویارک شہر میں کارڈ سکواڈ نے ایک پروگرام بنایا۔

انہوں نے جاوا سکرپٹ کی مدد سے ویڈیو کو بہتر بنایا۔ اس سے طالب علموں میں ایک نئی سرگرمی پیدا ہوئی۔ اگر بس گائیڈ اپنے لیے ایسی سرگرمی پیدا کرسکتی ہیں تو ہمارے سکول کیوں نہیں کر سکتے۔ ہماری رائے میں 9ویں گریڈ کے بعد تمام سکولوں کو ربوٹیکس کمپیوٹیشنل میپ اور کمپیوٹیشنل آرٹ کے نئے مضامین پڑھانے چاہیے۔ طلبہ کو ان نئے مضامین میں داخلہ لینے کیلئے شعور بیدار کرنا چاہیے۔ ان شعبوں میں کمپیوٹر سائنٹسٹ کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں چند ایک ہائی سکول ہی بنیادی ٹریننگ سے آگے بڑھ سکے ہیں خود نیویارک میں تھامسن ڈریفن ہائی سکول برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ایسے کچھ سکول آگے بڑھے ہیں۔ ہم ہائی سکولوں پر میتھ کے شعبو ں کو اہمیت دینے پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن یہ وہ والا میپ نہیں ہے جو بہت سے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے ہم نے سکولوں سے کہا ہے کہ وہ کنٹی نیوس میتھ بشمول ایڈوانس میتھ ، ایڈوانس کیلکولس پر زیادہ زور نہ دیں بلکہ اس میتھ پر زور دیں جس کا تعلق براہ راست کمپیوٹر سائنس سے ہے جیسا کہ سٹرٹیسٹ اور گراف ٹیری یا لاجک۔

یہ تعلیم کل کی بنیاد پر لگنے والی کورس کی بنیاد پر مدد گار ثابت ہوگی۔لیکن اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سائنس ٹیچروں کا خوفناک فقدان ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جس میں امریکہ کی ٹیک کمپنیاں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ہم یہاں مائیکروسافٹ کی مثال دیں گے۔ انہوں نے کئی پروگرام شروع کیے ہیں اور کمپیوٹر کے پروفیشنلز کو تعلیم دے رہے ہیں لیکن ہمیں چند اساتذہ کی نہیں بلکہ درجنوں لاکھ طالب علموں کیلئے ہزاروں ماہر ایجوکیٹرز کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے لاکھوں طالب علم اور ہزاروں اساتذہ درکار ہیں۔

جہاں تک اکیڈمیوں کا تعلق ہے ہم یہاں آکسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کی مثال دیں گے۔آسٹن یونیورسٹی نے یو ٹیچ پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کا دائرہ کار اب 21ریاستوں میں 44یونیورسٹیوں تک پھیل دیا گیا ہے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں کمپیوٹر کی تعلیم کا پروگرام یو ٹیچ شروع کیا گیا ہے۔لیکن یہ بھی کافی نہیں۔ ہمیں سائنس اور میتھ میں معیاری ایجوکیشن کی ضرورت ہے لیکن درسی کتب، کورسز اور اعلیٰ تربیت یافتہ کیڈر موجود نہیں۔ یہ تین عناصر مل کر ایک معیار کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس کام میں کمپیوٹر سائنس ٹیچر زایسوسی ایشن سے ہمیں بہت امیدیں وابستہ ہیں۔

تحریر: انجینئر رحمیٰ فیصل
 

Advertisement