سرینگر: (روزنامہ دنیا) مقبوضہ وادی میں لاک ڈاؤن کے ایک ماہ بعد کشمیری عوام حکام کی ان تمام کوششوں کی مزاحمت کر رہے ہیں جن کے ذریعے وہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وادی میں صورتحال معمول پر آ رہی ہے۔
نیوز ایجنسی کے مطابق مرکزی حکومت نے مقبوضہ وادی پر عائد پابندیوں میں کچھ نرمی کی ہے، تاہم کسی ممتاز رہنما کو رہا نہیں کیا، موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بھی تاحال معطل ہیں۔ طلبہ کی اکثریت کلاسز کا بائیکاٹ کر رہی ہے، دکاندار دکانیں کھولنے سے گریزاں جبکہ نجی اور سرکاری ملازمین کی اکثریت ابھی تک کام پر واپس نہیں آئی۔ سات سرکاری ملازمین اور درجن سے زائد شہریوں نے انٹرویو کے دوران اسے مرکزی حکومت کیخلاف غیر رسمی احتجاج قرار دیا۔
دکاندار شبیر احمد نے کہا ان کی شناخت خطرے میں ہے جس کا تحفظ ان کیلئے اولین ترجیح ہے، مودی حکومت ان کی شناخت بحال کرے، وہ کام پر واپس آ جائینگے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق معمول کے مظاہروں اور پتھراؤ جسے سکیورٹی فورسز آنسو گیس اور پیلٹ گنوں سے کچل دیتی ہیں، ان کیساتھ مقبوضہ وادی میں سول نافرمانی کا سلسلہ بھی ایک معمول ہے۔ اس سے قبل علیحدگی پسند گروپ شٹ ڈاؤن اور مظاہروں کی کال دیا کرتے تھے، اگست کے آخری دنوں سے سرینگر میں لگنے والے پوسٹروں میں دکانداروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ شام اور صبح کے اوقات میں دکانیں کھولیں تاکہ شہری اشیا ضرورت خرید سکیں۔ سکیورٹی فورسز کے دکانیں کھولنے کیلئے دباؤ کے باوجود شہر کے مرکزی تجارتی علاقوں کی بیشتر دکانیں بند رہتی ہیں۔ دکاندار محمد ایوب نے بتایا کہ وہ شام کے وقت لوگوں کیلئے دکان کھولتے ہیں، سکیورٹی فورسز انہیں کہتی ہیں کہ تمام دن دکانیں کھلی رکھیں ، شام کو بے شک بند رکھیں۔
ریاستی حکومت کے ترجمان روہت کانسل نے بتایا کہ ملک دشمن قوتیں دکانیں کھولنے سے روک رہی ہیں، سکیورٹی فورسز صورتحال کا نوٹس لے رہی ہیں۔ ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ سرینگر کے سکولوں اور اہم سرکاری دفاتر میں حاضری 50 فیصد سے کم ہے، نواحی علاقوں میں اس سے بھی کم ہے۔ محکمہ ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ کے 300 کے عملے میں سے صرف 30 ارکان حاضر ہو رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر ملازمین کے گھر دفتر کے قریب ہیں، وہ بھی دفتر کا صرف ایک بار چکر لگاتے ہیں۔ شہر کی معروف ڈل جھیل کا عملہ ابھی تک واپس نہیں آیا، جھیل کی سطح جھاڑیوں سے بھر چکی ہے، کئی سکول بالکل خالی ہیں۔ سرینگر کے مکین جاوید احمد نے بتایا کہ وہ کیسے بچوں کو سکول بھیجیں ؟ انہیں بچوں کے تحفظ کی فکر رہتی ہے۔
روہت کانسل نے بتایا کہ مقبوضہ وادی کے چار ہزار سکول پوری طرح سے فعال ہیں، حاضری کچھ علاقوں میں کم ہے، تاہم اس میں بہتری آ رہی ہے۔ ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک مہم شروع کی ہے جس میں بھارتی حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ مقبوضہ وادی میں ذرائع ابلاغ کا بلیک آؤٹ ختم کیا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل نے کہا ذرائع ابلاغ کے بلیک آؤٹ نے کشمیریوں کی روزمرہ کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ، ان کی جسمانی و ذہنی فلاح، میڈیکل کیئر، بنیادی ضروریات زندگی اور ایمرجنسی سروسز تک رسائی سب متاثر ہوئے ہیں۔ کشمیر کے ہوٹل مالکان نے بتایا کہ سیاح وادی میں آنے سے گریزاں ہیں جس سے ان کے کاروبار بند ہو چکے ہیں۔ ادھر سرینگر کی جامع مسجد گزشتہ ایک ماہ سے بند ہے ، پوسٹل سروسز متاثر جبکہ ایمزون سمیت آن لائن ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے جموں و کشمیر میں آپریشن معطل کر دیا ہے۔ لاجسٹک کے مسئلے کے باعث میڈیکل سٹورز پر اہم ادویات کی سخت قلت ہے جن میں ذیابیطس، کینسر اور اینٹی ڈپریشن کی ادویات سرفہرست ہیں، تاہم بعض عام ادویات بھی سٹوروں پر دستیاب نہیں۔