تہران: (ویب ڈیسک) امریکا نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو مار ڈالا تاہم ان کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے تھے کہ ملک کے دراصل دوسرے ’وزیر خارجہ‘ تھے جبکہ جنرل اسماعیل غنی کو پاسدارانِ انقلاب کے اہم حصے قدس فورس کا نیا کمانڈر مقرر کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بغداد میں امریکی راکٹ حملے میں ہلاک ہونیوالے قاسم سلیمانی سیاسی معاملات سے دور رہتے تھے تاہم عراق اور شام میں ملیشیا کی کارروائیوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کا تذکرہ اس وقت شروع ہوا جب امریکا اور اسرائیل نے ایران سے باہر پراکسی وارز یا درپردہ جنگی کاررائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’عرب نیوز‘‘ کے مطابق القدس فورس کے سربراہ کے طور پر جنرل سلیمانی نے کارروائیوں کو عراق، لبنان اور شام تک وسعت دی جس میں فورس کے اہلکاروں کو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف طویل جنگ میں ان کی حمایت کے لیے تعینات کیا گیا۔
سلیمانی 11 مارچ 1957 کو ایرانی صوبہ کرمان میں پیدا ہوئے تھے۔ کسان گھرانے میں آنکھ کھولنے والے سلیمانی کرمان شہر میں مزدوری بھی کرتے رہے۔ بعدازاں وہ کرمان واٹر آرگنائزیشن میں کانٹریکٹر رہے۔ اس دوران وہ مقامی جم میں ویٹ لفٹنگ کرتے تھے۔ اس عرصے کے دوران ان کی دلچسپی کا ایک اور مرکز ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ علی خمینی کے خطبات تھے۔
قاسم سلیمانی نے 1979 میں انقلابِ ایران کے بعد پاسدرانِ انقلاب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ابتدائی طور پر وہ شمالی مغربی ایران میں تعینات رہے۔ اس دوران انہوں نے ایران کے شمالی علاقوں میں کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔
اسی کی دہائی میں ہونے والی ایران، عراق جنگ کے دوران انہوں نے کم عمری میں 41 ویں ڈویژن کی کمانڈ کی۔ اس کے بعد انہوں نے بہت جلد پاسدرانِ انقلاب میں اپنی جگہ بنائی اور عراق کی جانب سے قبضے میں لیے گئے ایران کے کئی علاقے بازیاب کرائے۔
2003 میں امریکا نے جب وہاں برسراقتدار آمر اور ایران کے دیرینہ دشمن صدام حسین کو ہٹانے کے لیے حملہ کیا تو وہاں پر بھی القدس فورس کے اہلکار بھیجے گئے۔ جنرل سلیمانی کے اثر و رسوخ کے بارے میں میڈیا پر رپورٹ کیا جانے لگا جب شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کے لیے لڑنے کے ساتھ انہوں نے عراق اور شام میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے والی فورسز کو مشورے دینے شروع کیے۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ جنرل سلیمانی نے زیر کمانڈ اہلکاروں کو تربیت دی کہ امریکی حملے کے بعد وہاں موجود امریکی اہلکاروں کے خلاف حملے کیے جا سکتے ہیں جس میں بالخصوص سڑک کنارے ملک بم نصب کرنا شامل تھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق جنرل سلیمانی زیادہ تر ایرانیوں میں مقبول تھے اور انھیں ایک ایسے ہیرو کےطور پر جانا جاتا تھا جو بیرون ملک ایرانی دشمنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
نائن الیون حملوں حملوں کے بعد شروع ہونے والی افغان جنگ کے دوران جنرل سلیمانی نے طالبان کے ٹھکانوں کی نشان دہی میں امریکہ کی مدد بھی کی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے سینئر افسر ریان سی کروکر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے نائن الیون حملوں کے بعد جنیوا میں ایرانی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں جنہیں قاسم سلیمانی نے بریف کیا تھا۔
ریان سی کروکر نے اعتراف کیا تھا کہ قاسم سلیمانی کی معلومات پر امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں۔
جنوری 2011 میں ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی اور انہیں زندہ شہید قرار دیا۔
قاسم سلیمانی کو مشرقِ وسطیٰ میں فوجی حکمتِ عملی کے حوالے سے ایران کا سب سے طاقت ور رہنما سمجھا جاتا تھا۔ انہیں مشرقِ وسطیٰ میں کے مختلف عرب ملکوں میں سرگرم شیعہ تنظیموں کی معاونت اور ان ملکوں میں ایرانی مفادات کے تحفظ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔
امریکہ نے اپریل 2019 میں ایران کی پاسدرانِ انقلاب کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ اس اقدام کے ردِ عمل میں جنرل قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات مکمل سرنڈر کے مترادف ہو گا۔
جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بارے میں ماضی میں متعدد بار اطلاعات سامنے آئیں تھیں جس میں 2006 میں ایران کے شمالی مغربی علاقے میں فوجی ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بعد ان کا نام آیا اور اس کے بعد 2012 میں دمشق میں ہونے والے بم حملے کے بارے میں خبریں آئیں کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کے فوجی افسران کے ساتھ اس حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
2015 نومبر میں ایسی افواہیں بھی سامنے آئیں تھیں کہ وہ حلب میں شامی شہر میں شامی صدر کی شامی فورسز کے ساتھ کارروائیوں کے دوران مارے گئے یا شدید زخمی ہو گئے۔
دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جنرل اسماعیل غنی کو پاسدارانِ انقلاب کے اہم حصے قدس فورس کا نیا کمانڈر مقرر کر دیا ہے۔ ہلاک ہونے والے جنرل قاسم سلیمانی کے نائب تھے۔
کم گو اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے میجر جنرل قاسم سلیمانی ایران کے قدامت پسند حلقوں میں خاصے مقبول تھے۔ لیکن لبرل ایرانی حلقے اور ایرانی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے ان سے خائف تھی اور اُنہیں ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں اور ایران کو سفارتی محاذ پر درپیش مسائل کا بڑا ذمہ دار سمجھتی تھی۔
قاسم سلیمانی کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2018 میں دی گئی دھمکی بھی بہت مقبول ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں صدر ٹرمپ سے کہا تھا کہ ہم آپ کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اتنا قریب کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ جنگ شروع صدر ٹرمپ کریں گے لیکن اس کا اختتام ہم کریں گے۔
اُدھر سليمانی کی ہلاکت کے بعد دارالحکومت تہران میں ہزارہا افراد امریکا مخالف مظاہروں میں شریک ہیں۔