نیویارک: (ویب ڈیسک) عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے کے بعد امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ایران نے کبھی جنگ نہیں جیتی۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایران نے کبھی بھی جنگ نہیں جیتی لیکن مذاکرات میں کبھی شکست نہیں کھائی۔
Iran never won a war, but never lost a negotiation!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) January 3, 2020
General Qassem Soleimani has killed or badly wounded thousands of Americans over an extended period of time, and was plotting to kill many more...but got caught! He was directly and indirectly responsible for the death of millions of people, including the recent large number....
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) January 3, 2020
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے ہزاروں امریکیوں کو قتل اور زخمی کیا، قاسم سلیمانی مزید کئی امریکیوں کو مارنے کی منصوبہ کر رہے تھے، وہ براہ راست یا بلا واسطہ لاکھوں لوگوں کے قتل کا ذمہ دار تھے۔
....of PROTESTERS killed in Iran itself. While Iran will never be able to properly admit it, Soleimani was both hated and feared within the country. They are not nearly as saddened as the leaders will let the outside world believe. He should have been taken out many years ago!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) January 3, 2020
ان کا کہنا تھا کہ سلیمانی نے ایران میں سینکڑوں مظاہرین کو قتل کیا، ایران میں قاسم سلیمانی سے لوگ نفرت کرتے تھے اور ان سے ڈرتے تھے، ان کو کئی سال پہلے کی ختم کرنا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیں:بغداد ہوائی اڈے پر امریکی حملہ، ایران کی ایلیٹ القدس فورس کے سربراہ قاسم جاں بحق
اس سے قبل سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ایران عراق سمیت پورے خطے میں پراکسی وار میں ملوث ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟ جانیے
ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد رد عمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی پراکسی وار کے مرکزی کردار تھے، ہم نے ایران کو بتا دیا کہ مزید امریکیوں کا قتل برداشت نہیں کریں گے۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے کسی بھی طرح کے رد عمل کے لیے تیار ہیں، قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے میں امریکی پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگئے ہیں، دنیا کو باور کرنا چاہتے ہیں کہ امریکا کے خلاف خطرناک حملے کی منصوبی بندی ہورہی تھی۔
دوسری طرف عالمی برادری کا بھی ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد رد عمل سامنے آ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل سلیمانی پر حملہ عالمی دہشت گردی، امریکا کو نتائج بھگتنا ہوں گے: ایرانی وزیر خارجہ
امریکی ایوان نمائندگان نینسی پلوسی کا کہنا ہے کہ حملے سے خطے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
ڈیموکریٹک سیاستدان اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایرانی جنرل کو ہلاک کرنے کے اس فیصلے سے امریکا مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے اور سنگین تنازعے کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔ ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم اور ایوانِ نمائندگان کے سینیئر ری پبلکن رکن کیون میکارتھی نے تاہم اس امریکی اقدام کی حمایت کی ہے۔
لبنانی سیاسی و عسکری تحریک حزب اللہ کا کہنا تھا کہ سلیمانی کو ہلاک کرنے والوں سے انتقام لینا دنیا بھر کی مزاحمتی قوتوں کا ٹاسک ہونا چاہیے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے کہا کہ وہ سلیمانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام ادھورے مقاصد کی تکمیل کریں گے۔
عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکی حملے کو جارحیت قرار دیا اور تازہ صورتحال کے تناظر میں ملکی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
ادھر عراقی سیاستدان اور ملیشیا لیڈر مقتدیٰ الصدر نے مہدی آرمی دوبارہ فعال کرنے کااعلان کر دیا ہے۔ عراق میں امریکی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو ہدایت جاری کرتے ہوئے فوری عراق چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔
شامی حکومت نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ جنرل سلیمانی کو قتل کر کے واشنگٹن حکومت نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کی آگ پر تیل چھڑکا ہے۔ دمشق نے اس امریکی اقدام کو ایک بزدلانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خطے میں مزاحمتی عمل کو مزید تقویت فراہم کرے گا۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں جنرل سلیمان کی کی ہلاکت کو ایک مہم جوئی قرار دیا گیا اور کہا ہے کہ یہ خطے میں کشیدگی بڑھنے کا سبب بنے گی۔ ماسکو سے جاری ہونے والے اس بیان میں سلیمانی کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے ایرانی مفادات کو تحفظ دینے کی بھرپور کوششیں کی اور ان کی ہلاکت پر ایرانی عوام سے تعزیت کی جاتی ہے۔
فرانسیسی وزیر برائے یورپ ایمیلی ڈی موں چلاں کا کہنا تھا کہ وہ صبح جب اٹھیں تو دنیا مزید خطرناک ہو چکی تھی۔ صدر ایمانوئل ماکروں خطے کے رہنماؤں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں۔ ایسے آپریشن کے نتیجے میں مجموعی صورتحال میں کشیدگی بڑھتی ہے اور دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ خطے کے امن و استحکام کو برقرار رکھا جائے۔
چینی وزارت خارجہ کاکہنا تھا کہ چین بین الاقوامی معاملات میں طاقت کے استعمال کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے اور اس صورت حال میں متعلقہ فریق صبر اور برداشت کا مظاہرہ کریں تا کہ علاقائی صورت حال خراب سے خراب تر نہ ہو۔ چینی وزارت خارجہ نے عراق کی آزادی اور حاکمیت اعلیٰ کے احترام پر زور دیا ہے۔