جون ایلیا: ایک حیرت انگیز شاعر

Last Updated On 08 November,2018 06:20 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) جون ایلیا 14دسمبر 1931ء کو ہندوستان کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ جون کا گھرانہ ایک علمی اور ادبی گھرانہ تھا۔ ان کے والد سید شفیق حسن ایلیا ایک شاعر اور عالم تھے اور ان کے بھائی رئیس امروہوی اور سید محمد تقی پاکستان کے بڑے صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔

اس علمی اور ادبی ماحول کا جون پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے 8 سال کی عمر میں اپنا پہلا شعر کہا۔ تقسیم ہند کے بعد جون 10 سال تک امروہہ میں ہی مقیم رہے۔ بالآخر 1957ء میں وہ پاکستان چلے آئے اور کراچی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ پاکستان آنے کے بعد جون کو یہاں کے ادبی حلقوں میں اپنا مقام بنانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ شاعری تو جون کی گھٹی میں سمائی ہوئی تھی لیکن وہ اس کے علاوہ ایک بہترین نثر نگار بھی تھے۔ جون شاعر، مصنف، مترجم، فلسفی، مفکر اور عالم بھی تھے۔ اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، سنسکرت اور عبرانی پر جون کو عبور حاصل تھا۔

1958ء میں انہوں نے ماہ نامہ انشاء کے نام سے کراچی میں ایک علمی و ادبی رسالہ نکالا جو 1964ء سے عالمی ڈائجسٹ کے نام سے شائع ہونے لگا اور 1988ء تک مستقل شائع ہوتا رہا۔ 1963ء سے 1968 تک جون ایک تحقیقی تنظیم کے لیے کام کرتے رہے جہاں انہوں نے کئی عربی اور فارسی کتب کے اردو ترجمے کیے۔ ’’حسن بن صباح‘‘ جون کی ایک تصنیف ہے جو کہ اردو ادب کا ایک شاہ کار ہے۔ 1966ء میں جب ترقیٔ اردو بورڈ نے اردو لغت پر کام شروع کیا تو انہوں نے جون ایلیا کی خدمات حاصل کیں اور جون 1976ء تک لغت کمیٹی کے رکن رہے۔ 1979ء میں جون اسلامی ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہوئے جہاں انہوں نے مشہور فلسفی اور عالم دین علامہ طوسی کی علم کلام پر لکھی گئی کتاب التجرید کا اردو ترجمہ کیا جو کہ اردو ادب کا ایک اور قیمتی سرمایہ ہے۔ 1988ء میں عالمی ڈائجسٹ کے بند ہونے کے بعد جون نے ماہ نامہ روشن خیال کے نام سے ایک نیا رسالہ شروع کیا اور تصنیف کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔

جون کلاسیکی شاعری کی روایات کو توڑتے ہوئے اپنے اشعار میں انسان کے وجود اور کائنات کی حقیقت کے متعلق اپنے منفرد نظریات اور افکار کو بیان کرتے ہیں جن کو پڑھ کر قاری حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سوچ کچھ لمحوں کے لیے سکتے میں آ جاتی ہے۔ جون ایلیا کے کچھ قطعات جو سوشل میڈیا کی ویڈیوز کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچے ان کے درمیان جون کی شناخت بن گئے، ان میں سے چند آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں:

شرم، دہشت، جھجک، پریشانی ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ، وہ، جی، مگر، یہ سب کیا ہے تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں

ہے محبت حیات کی لذت ورنہ کچھ لذت حیات نہیں کیا
اجازت ہے ایک بات کہوں وہ، مگر خیر کوئی بات نہیں

دور وابستگی گزار کے میں عہد وابستگی کو بھول گیا
یعنی تم وہ ہو واقعی حد ہے میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا

یہ تو جون ایلیا کی وہ شاعری ہے کہ جو عوام میں مشہور ہے لیکن ان کی شاعری میں ان کی منفرد سوچ اور ایک بالکل مختلف اور معاشرے میں قائم شدہ ہر روایات کی نفی کرنے والے خیالات کی عکاسی بھی خوب پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر محبت کا اظہار اور محبوب کی نازبرداری شاعری اور بالخصوص غزل کی روایت رہی ہے لیکن جون نے غزل کے ان تقاضوں سے انکار کرتے ہوئے محبوب کو بڑے بیباک اور دوٹوک انداز سے مخاطب کیا ہے، بہت نزدیک آتی جا رہی ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا اپنی بیباکی اور صاف گوئی کے باعث جون بے وفائی اور بے مروتی کے خلاف شدید احتجاج کرتے بھی نظر آتے ہیں، عہد رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے تم تو میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا اور، کتنی دلکش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے خوشبو میں رنگ بھرنے والا اور دنیا کو الگ ہی نظر سے دیکھنے والا یہ بے مثال شاعر اور مفکر 8 نومبر 2002ء کو اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا جون ایلیا کا پہلا شعری مجموعہ ’’شاید‘‘ 1991ء میں ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’یعنی‘‘ ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے تین مجموعے ’’گویا‘‘، ’’گمان‘‘ اور ’’لیکن‘‘ منظر عام پر آئے۔ جون کے ایک شاگرد خالد انصاری بہت جلد جون کا ایک اور مجموعہ کلام شائع کرنے والے ہیں اور وہ ان کا آخری مجموعہ ہوگا۔
 

Advertisement