عظیم مسلمان ہیرو ارطغرل غازی کون تھے؟

Last Updated On 28 April,2020 11:52 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان میں ترکی کے مشہور ڈرامہ ’ارطغرل غازی‘ کو پہلی رمضان المبارک سے نشر کیا جا رہا ہے، اس کی مقبولیت کا صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی پر شہروں اور گاؤں کے لاکھوں صارفین نے دیکھا جبکہ حیران کن طور پر مذکورہ ڈرامے کو پی ٹی وی کے یوٹیوب چینل پر بھی اب تک 50 لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔

ارطغرل غازی کو نشر کرنے سے جہاں لاکھوں ڈرامہ شائقین کا انتظار ختم ہوا، وہیں پی ٹی وی کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یوٹیوب چینل کو ایک ہی دن میں 50 ہزار سے زائد نئے صارفین نے سبسکرائب کیا۔

ارطغرل غازی اردو زبان میں ڈبنگ سے قبل یہ ڈرامہ پاکستان میں اس حد تک مقبول ہے کہ اس کے مداحوں میں وزیراعظم عمران خان کو بھی گنا جاتا ہے جو اس میں دکھائی گئی ’اسلامی تہذیب‘ کی تعریف کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی ترک ڈرامہ ارطغرل غازی کو پی ٹی وی پر نشر کرنیکی ہدایت

عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کے والد تھے۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو بات طے ہے وہ یہ کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے علاقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اسکی حکومت اناطولیہ کی درجنوں چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔

سلطنت عثمانیہ کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 37 سلطان اس کی مسند پر بیٹھے۔ ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ترک ڈراموں کی مقبولیت نے پاکستان میں دھاک بیٹھا دی

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب ’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان کی اناطولیہ میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی انتہائی سخت تھی۔

مؤرخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘ میں روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور 12 ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک علاقے میں آباد رہے۔

روایت کے مطابق منگول حملوں کے پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا سلمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔ جبکہ ارطغرل نے مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اناطولیہ کے علاقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے انکی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے مغربی علاقے میں زمین دے دی۔

یہ بھی پڑھیں: افواہیں بے بنیاد، ترک ڈرامہ ارطغرل غازی جلد نشر کیا جائے گا: پی ٹی وی

جے شاہ کی کتاب میں درج اس روایت کے مطابق ارطغرل 1280 میں چل بسے اور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے عثمان کو مل گئی۔

فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی سلطنتوں کے بیچ کے علاقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سوگت میں کچھ علاقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا عثمان سے کیا تعلق تھا؟ عثمان کے دور سے ملنے والا واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقیناً تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے ’جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل‘ درج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے پسندیدہ ترکش ڈرامے سے متاثر میکسیکن جوڑے نے اسلام قبول کر لیا

انہوں نے مزید لکھا کہ عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر 1300 کے قریب ملتا ہے۔

ایک بازنطینی مؤرخ نے لکھا کہ 1301 میں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ ’جنگ بافیوس‘ کہلانے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی بہت وقت تھا اور جب ایسا ہوا تو اس کیساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔

مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا علاقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا انعام یقینی تھا۔

مؤرخُ لیسلی پی پیرس نے کتاب ’دی امپیریل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔ اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ درویش صوفی بزرگ شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اسکے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ترک ڈرامہ ارطغرل غازی مقبوضہ کشمیر میں بھی مقبول ہونے لگا

اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے ہیں اور کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ عثمان نے جب شیخ ادیبالی سے تعبیر پوچھی تو انھوں نے کہا کہ خدا نے عثمان اور اس کی اولاد کو دنیا کی حکمرانی کے لیے چن لیا ہے اور انھوں نے کہا کہ ان کے سینے سے نکل کر عثمان کے سینے میں داخل ہونے والا چاند ان کی بیٹی ہے اور جو اس خواب کے بعد عثمان کی اہلیہ بن گئیں۔

ارطغرل کا اناطولیہ 13ویں صدی کا اناطولیہ تھا۔ کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ جس اناطولیہ میں یہ ترک قبائل پہنچے تھے وہاں بہت عرصے سے کئی نسلوں اور مذاہب کے لوگ آباد تھے جن میں یہودی، آرمینیائی، کرد، یونانی اور عرب شامل تھے۔ اس علاقے کے مغرب میں ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور بازنطینی سلطنت تھی (جس کا اختیار اچھے دنوں میں اناطولیہ سے ہوتا ہوا شام تک تھا) اور مشرق میں سلجوق جو اپنے آپ کو رومی سلجوق کہتے تھے۔

سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ترک (خانہ بدوش) جب اناطولیہ آئے تو صوفی بزرگ بھی ان کے ساتھ ہی آ گئے جس پر طاقتور سلجوق حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ ان صوفیوں کی لوگوں میں مقبولیت کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نکل جانے پر خوش تھے۔

جے شا مزید لکھتے ہیں کہ اس عمل میں کچھ مسیحی ہلاک اور اپنا علاقہ چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے لیکن زیادہ تر اپنی جگہ پر رہے۔ کچھ نے اسلام بھی قبول کیا۔ کچھ ترک صوفی سلسلے مسیحی مذہبی مقامات میں بھی داخل ہوئے جہاں مسیحی اور مسلمان ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ پر عبادت کرتے نظر آتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی ترک ڈرامہ ارطغرل غازی کو پی ٹی وی پر نشر کرنیکی ہدایت

سوگت کے علاقے (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ارطغرل کو سلجوق سلطان سے ملا تھا) میں ارطغرل کے نام کی ایک چھوٹی سی مسجد اور ایک مزار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ ارطغرل کے بیٹے نے ان کے لیے بنائی اور پھر جس میں عثمان کے بیٹے ارہان نے اضافہ کیا۔

کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ مسجد اور مزار پر اتنی بار کام ہوا ہے کہ اس کی پہلی تعمیر سے کوئی نشانی نہیں بچی اس لیے کسی عمارت کے بارے میں پورے اعتبار سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عثمان کے دور کی ہے۔

امریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے مڈل ایسٹرن رویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوال اٹھایا کہ ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا ہی انتخاب کیوں کیا؟

جوش کارنی کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں سلطان سلیمان (1566-1520) اور عبدالحمید دوم (1909-1876) کی شہرت ارطغرل سے بہت زیادہ ہے لیکن ارطغرل پر ٹی وی سیریل بننا بغیر وجہ نہیں۔

ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کی دنیا بھر میں انتہائی کامیاب سیریز ’دیریلیس ارطغرل‘ ان کے قائی قبیلے کی اناطولیہ میں مختلف دشمنوں سے لڑتے ہوئے پیشرفت پر مبنی ہے۔ نتیجتاً جبکہ تاریخی کردار ارطغرل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ٹی آر ٹی کا کردار ترکی میں اور ترکی سے باہر مقبول ہے اور لوگ اس سے پیار کرتے ہیں۔

2018 میں لکھے گئے اس مضمون میں کارنی کہتے ہیں کہ اس سیریز کے کئی پہلو ترکی میں ہونے والے آئینی ریفرنڈم کے اشتہاروں میں واضح تھے جس سے کوئی شک نہیں رہتا کہ تاریخ اور پاپولر کلچر کو سیاسی فائدے کے لیے اکٹھا کر دیا گیا ہے۔
 

Advertisement