لاہور: (دنیا نیوز) مخالفین اگرچہ عمران خان پر کسی خفیہ معاونت کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن ایک فون ایپ اور پانچ کروڑ ووٹروں کا ڈیٹا بیس گزشتہ ماہ کے الیکشن میں کامیاب مہم کے بنیادی ہتھیار تھے۔
عمران خان کی جماعت نے ڈیٹا بیس اور متعلقہ ایپ کا جس طرح استعمال کیا وہ بڑی پارٹیوں کی انتخابی سیاست کے پرانے طریقے میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی علامت ہے جس میں پولنگ سے قبل ووٹروں تک رسائی سے لے کر پولنگ کے روز اپنے حامیوں کو متحرک کرنا شامل ہیں۔
تحریکِ انصاف نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں حریف جماعتیں کاپی نہ کر لیں، پولنگ تک ٹیکنالوجی کے استعمال کا منصوبہ خفیہ رکھا، کئی پارٹی کارکنوں نے رائٹرز کو دکھایا کہ ایپ کے استعمال سے کیسے ان کی کایا پلٹی اور انہیں دوسروں پر فوقیت دلائی۔
فون ایپ سروس حامیوں کو پولنگ بوتھ تک لانے میں انتہائی کارآمد ثابت ہوئی، جب حکومت کی اپنی ٹیلی فون انفارمیشن سروس جو کہ ووٹروں کو پولنگ کے مقام کی معلومات دے رہی تھی، الیکشن کے دن مسائل کا شکار ہو گئی جس کے باعث دیگر پارٹیاں کچھ نہ کر پائیں۔ کئی حلقوں سے عمران خان کی پارٹی کی معمولی مارجن سے کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے۔
نومنتخب رکن اسد عمر کے حلقے کے کارکن عامر مغل کے مطابق ایپ اور ڈیٹا بیس کے استعمال نے اچھے نتائج دیئے، ان کے اپنے ڈیٹا مینجمنٹ یونٹ میں ایسے گھرانوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو کہ ٹی پی آئی کے پکے ووٹر تھے، انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہرووٹر پولنگ بوتھ پر پہنچے۔ جن کاموں میں ہفتے لگ جاتے ہیں، وہ 2 تین گھنٹے میں ختم کرتے رہے، پولنگ کے آخری منٹوں تک وہ ووٹروں سے رابطے میں رہے۔
ہر حلقے کا مینجمنٹ سسٹم ایک چھوٹی سی ٹیم نے تیار کیا، اس کی ضرورت 2013ء کی انتخابی ناکامی کی وجہ سے محسوس کی گئی کیونکہ انتخابی کامیابی کے ہنر سے ناآشنا تحریکِ انصاف اپنی مقبولیت کو ووٹوں میں تبدیل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
الیکشن سے کچھ ہفتے قبل عمران خان نے واٹس ایپ پر ویڈیو پیغام بھیجا جس میں انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں پر زور دیا کہ وہ حلقے کا مینجمنٹ سسٹم لازمی استعمال کریں۔
یہ سسٹم ابتدائی طور پر امریکا میں مقیم تاجر طارق دین اور ٹیک کنسلٹنٹ شہزاد گل نے تیار کیا، جس کا پہلا ورژن پارٹی نے فوری طور پر قبول نہیں کیا تھا تاہم اسد عمر اور جہانگیر ترین نے اس کی افادیت کا اندازہ لگا لیا تھا۔
2015ء کے بلدیاتی انتخاب میں اس سافٹ ویئر کا استعمال ہوا جس کے حوصلہ افزا نتائج ملے۔ عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے 150 حلقوں پر فوکس کیا، جہاں اس کی کامیابی کے امکانات روشن تھے۔
ایپ پر ووٹر کا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر پی ٹی آئی کے ورکر ایک خاندان کی مکمل تفصیلات دیکھ سکتے تھے کہ اس خاندان میں مزید کتنے افراد اور وہ کس کے ووٹر ہو سکتے ہیں۔
حلقے کا مینجمنٹ سسٹم تیار کرنیوالوں کے مطابق اس سسٹم کا صرف جزوی فائدہ ہی اٹھایا جا سکا ہے، ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ملک بھر میں ورکروں کو تربیت دے سکتے، کچھ سیاستدان اس کے استعمال سے گریز کر رہے تھے۔
ووٹنگ کے روز پی ٹی آئی کے کارکن پرچیوں کے پرنٹ دے رہے تھے جبکہ ن لیگ کے کارکن پین سے پرچیاں لکھ رہے تھے۔ ن لیگ کے ورکروں کیلئے ممکن نہ تھا کہ پرچیاں لکھنے کیساتھ ووٹروں سے بھی رابطے میں رہ سکیں۔