حکومت اپوزیشن سیاسی محاز آرائی کا کھیل

Last Updated On 03 January,2019 10:37 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی ) لوگوں کو تحریک انصاف کی نئی حکومت سے توقع تھی اس کی بڑی ترجیحات میں سیاسی محازآرائی کے مقابلے میں ملک کی ترقی کے عمل کو آگے لے کر جانا ہوگا۔ لوگوں کو یقین تھا کہ عمران خان کی حکومت ایک ایسی ترقی کا منظرپیش کرے گی جو لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لائے گی۔ لیکن حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی سب کے سامنے آگئی ہے اور لوگ حکومت سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔

خاص طور پر ملک کی معاشی حالت میں جو بڑی خرابیاں جنم لے رہی ہیں اس سے لوگوں کی زندگیوں میں پہلے سے موجود مشکلات میں اور زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کا ماحول بھی بڑھ رہا ہے، ان کے اپنے حامی بھی یہ اعتراف کررہے ہیں کہ ہم عام آدمی کو زیادہ ریلیف نہیں دے سکے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی کارکردگی کو زیادہ مؤثر بناتی مگر اس نے چاروں اطراف سے محاذ آرائی کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو احتساب کے نام پر دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے بعد اب سیاسی میدان میں سندھ میں سجایا جا رہا ہے جہاں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر سندھ حکومت کو تبدیل کرنے، وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ، گورنر راج اور پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

یہ تک کہہ دیا گیا کہ آنے والے کچھ عرصہ میں سندھ میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ہوگی، یہ حکومت کیسے ہوگی یعنی ایک بار پھر ملک میں فارورڈ بلاک بنا کر ہارس ٹریڈنگ کی سیاست کو آگے بڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ وزرا کی فوج جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر سندھ حکومت پر ٹوٹ پڑی ہے۔ 172 افراد کو وفاقی کابینہ نے ای سی ایل میں ڈال دیا ہے جس پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے سخت ردعمل پر سندھ میں پیپلز پارٹی نے بھی سخت ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ سندھ حکومت کو ہٹانے والے اپنی وفاقی حکومت کی فکر کریں کیونکہ وہ چند ووٹوں سے کھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بقول ان کے پاس سندھ میں واضح مینڈیٹ ہے او راگر کسی نے سندھ کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو دونوں سندھ میں لگاتار جلسے کر کے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے یہ خیال بھی پیش کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف وہ مشترکہ طور پر دیگر جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر تحریک چلائیں گے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ موجود ہ صورتحال میں مسلم لیگ ن بھی سامنے آگئی ہے اور اس نے بھی وفاقی حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ اگر اس نے مسلم لیگ ن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ بھی حکومت کے خلاف دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر عدم اعتماد لاسکتے ہیں۔ مسلم لیگ نے خبردار کیا ہے کہ تحریک انصاف ہمیں کمزور نہ سمجھے ہم واقعی سیاسی نظام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ خود تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی سیاسی او رمعاشی ناکامی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ اس ناکامی سے بچنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف محاز آرائی کے کھیل کو آگے بڑھارہی ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے الزا م لگایا ہے کہ حکومت احتساب کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کررہی ہے جو جمہوری سیاست کیلئے مفید نہیں ہے۔ دونوں جماعتیں نیب کے خلاف بھی متحد نظر آتی ہیں اور وہ نیب کے سیاسی استعمال پر بھی شور مچارہی ہیں۔

حکومت کو بہت سے سیاسی لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ ہر صوبے میں ہر جماعت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرے اور کسی بھی جماعت کے مینڈیٹ کو ختم کرنا سیاسی نظام کو خطرے میں ڈالنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بھی سندھ میں گورنر راج لگانے کی مخالفت کی اور کہا کہ اگر ایسا ہوا تواس کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فوری طور پر حکومت نے جو سندھ میں بڑی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس پر کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ حکومت کو لگ رہا ہے کہ ان کے خلاف تنقید کا عمل کافی بڑھ گیا ہے اور اسی بنیاد پر فواد چودھری کو کہنا پڑا ہے کہ تحریک انصاف نہ تو سندھ میں حکومت تبدیل کر رہی ہے اور نہ ہی گورنر راج لگایا جارہا ہے۔ ان کے بقول ہم نے صرف اتنا مطالبہ کیا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد سندھ کے وزیراعلیٰ کو خود پارٹی تبدیل کر دے کیونکہ ان کا نام اس رپورٹ میں موجود ہے۔ مگر کیا جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کو اس کے عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے اس کی کوئی قانونی شق موجود نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی بیان ہے اور اس کا مقصد پیپلز پارٹی کی حکومت کو دباؤمیں لانا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سیاست میں حکومتیں مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا موقع نہ دیا جائے جس کا براہ راست فائدہ اپوزیشن کو ہو۔ لیکن یہاں تحریک انصاف کی حکومت کا مجموعی رویہ خود محاذ آرائی کو پیدا کرنا ہے۔

حکومت اگر احتساب کرنا چاہتی ہے توضرور کرے لیکن اس کے لیے وزیر اعظم سمیت وفاقی وزرا کو ڈرانے اور دھمکانے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے۔ کیا حکومت خود احتساب کے عمل کو سیاست کی نذر نہیں کر رہی اور کیوں وہ ایسا کھیل کھیل رہی ہے جس سے حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت ملک سنگین مسائل سے دوچار ہے خاص طور پر ملک کی معاشی حالت کافی خطرے میں ہے۔ ایسے میں حکومت کو کسی محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرے۔ ایک طرف حکومت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتی ہے تو دوسری طرف اسی فیصلے کے خلاف وفاقی وزرا مخالفانہ بیان دے کر خود حکومت کے لیے مشکل پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم اپنی حکومت میں موجود ان خرابیوں کی طرف بھی توجہ دیں جو ان کو ترقی کی طرف لے کر جانے کے بجائے تلخیوں کی طرف لے کر جا رہی ہے، حالانکہ اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت کو مفاہمت کی پیش کش کر رہی ہیں اور حکومت اس مفاہمت کو ان کی کمزوری سمجھ کر بلاوجہ ایک ایسے کھیل کی طرف بڑھ رہی ہے جو سیاست کو بند گلی میں لے کر جاسکتی ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ابھی بھی اس ملک میں جمہوریت کا سفر بہت مضبوط نہیں اور جمہوریت کو آگے بڑھانے کے لیے ہماری سیاسی جماعتوں کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں محاذآرائی کا ایجنڈا نہ تو حکومت کا ہونا چاہیے اور نہ ہی اپوزیشن کا کیونکہ یہ ملکی مفاد کے خلاف ہوگا اور اس سے ملک میں جمہوریت بھی کمزور ہوگی۔ لیکن اس میں بڑا کردار خود حکومت کا ہے کہ وہ ایسا راستہ اختیار نہ کرے جو خود ان کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کرے۔