پاکستان کیلئے آگے بڑھنے کا راستہ

Last Updated On 06 March,2019 03:32 pm

لاہور: ( امتیاز گل) پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونیوالی کشیدگی کے تناظر میں پاکستان نے عسکری اور سفارتی دونوں محاذوں پر قابل تعریف فہم و فراست اور بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کیا، بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی واپسی تک وزیر اعظم عمران خان نے جو اقدامات کئے انہیں بڑے پیمانے پر خراج تحسین پیش کیا گیا، یہاں تک کہ او آئی سی اجلاس کے بعد 2 مارچ کو جاری کیے گئے ‘‘ اعلان ابوظہبی ’’ میں بھی بھارتی پائلٹ کی واپسی کے اقدام کو سراہتے ہوئے توقع ظاہر کی گئی کہ پاکستان کے اظہار خیر سگالی سے خطے میں موجود کشیدگی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

بلاشبہ پاکستان نے جو دانشمندانہ حکمت عملی اپنائی، کشیدگی کے باوجود انتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے جو اعتدال پسندانہ طرز عمل اختیار کیا اور امن کیلئے مذاکرات کی ضرورت پر جو اصرار کیا اس کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کیلئے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ دنیا بھر کے سامنے بھارت کے موقف کو کھوکھلا ثابت کرسکیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود یہ بہت بڑا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان نے جو قابل تحسین اقدامات کیے ان کی وجہ سے اسے کوئی سٹر ٹیجک فائدہ بھی ہوگا یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ تکالیف اٹھانے، صبر و تحمل، دور اندیشی اور فہم و دانش کا مظاہرہ کرنے کا پاکستان کو کوئی صلہ ہی نہ ملے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی بڑی حد تک سیاسی تنہائی کا شکار ہونے کے باوجود اپنے پاس موجود اسلحے کا بار بار ذکر کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دھمکیاں دی جاری ہیں کہ ان کی فوج پاکستانی حدود میں داخل ہوکر کارروائی کرسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ ہے کہ وہ مودی کے اس جنگی جنون اور مہم جوئی کو بے نقاب کر کے کوئی فائدہ حاصل کرسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس وقت پاکستان کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں مختصرا ان کا جائزہ لیا جائے۔

او آئی سی وزرائے خارجہ کے 46 ویں اجلاس کے اختتام پر جو 50 نکاتی اعلان جاری کیا گیا اس میں کشمیر کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے، حالانکہ کشمیر ہی تو وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی 3 جنگیں ہو چکی ہیں اور اسی تنازع کے باعث دونوں ممالک کے مابین معمول کے دوستانہ تعلقات اب تک قائم نہیں ہوسکے ہیں، یہاں یہ نشاندہی بے محل نہ ہوگی کہ بھارتی وزیر خارجہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے اس اجلاس میں بطور مہمان خصوصی نہ صرف شریک ہوئیں بلکہ انہوں نے اس اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ اعلان ابوظہبی میں کشمیر تو مسلمان ممالک کے وزرائے خارجہ کی توجہ حاصل نہ کرسکا لیکن ( نکتہ نمبر13, 14,15 میں ) فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ وہ بڑا مسئلہ ہے جو عرب اور مسلمان ممالک کیلئے شدید تشویش کا باعث بنا ہوا ہے ، اعلان ابوظہبی میں یہ بات اس حقیقت کے باوجود کہی گئی کہ عرب امارات، ترکی اور دوسرے بعض مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی یا سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں، فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مخالفت کرنے والے ممالک میں بھارت، ترکی اور کئی عرب ممالک شامل ہیں، اس کے باوجود ان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ قدرے سرد مہری کے ساتھ ہی سہی لیکن کسی نہ کسی سطح پر مختلف نوعیت کے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہ ایک اہم بات ہے کہ بھارت میں خواہ بی جے پی کی حکومت ہو یا کانگریس کی، دونوں صورتوں میں بھارت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF)کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں عائد کروانے کی مہم میں پیش پیش رہے گی۔ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ یہ ٹاسک فورس جو ایک ریگولیٹری ادارہ ہے اب سیاسی پلیٹ فارم بن چکا ہے ، کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے کی زیادہ توجہ پاکستان اور ایران کی گردن مروڑنے پر مرکوز ہے۔

اکثر لوگ اس ٹاسک فورس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس کی پالیسی غیر منصفانہ اور جابرانہ ہے، لیکن موجودہ زمانے میں جب کہ مختلف ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوچکی ہیں اس ٹاسک فورس کے اثر و رسوخ کو تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع نہیں ہوجاتے اور اس کا جارحانہ رویہ تبدیل نہیں ہوجاتا اس وقت تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تلوار پاکستان کے سر پر لٹکتی رہے گی، تیسری بات یہ ہے کہ اقتصادی وجوہ کی بنا پر ہی سہی ، بھارت دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ طاقتور اقوام کے ساتھ رابطے میں ہے ، ان ممالک میں امریکہ ، روس، چین اور آٹھویں نمبر پر اسرائیل بھی شامل ہے ۔ چوتھی اہم حقیقت یہ ہے کہ جون 1991 کے بعد سے بھارت اور اسرائیل کے مابین غیر معمولی گرمجوش تعلقات قائم ہیں، 1992 میں ایک اسرائیلی سیاح کو مبینہ طور پر ایک کشمیری عسکریت پسند نے قتل کردیا تھا، اس کے بعد 1992 میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے جو اب تک برقرار ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کا آغاز دہشت گردی کے خلاف تعاون سے ہوا، اس کے بعد ان مراسم کا دائرہ تیزی کے ساتھ پھیل گیا، دونوں ممالک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون شروع کیا، اس کے علاوہ انہوں نے اربوں ڈالر کے مشترکہ آئی ٹی منصوبوں سمیت مختلف منصوبوں کا آغاز بھی کیا، ان میں بھارت کیلئے خطرناک جنگی آلات بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں،لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسداد دہشت گردی اور آئی ٹی کے شعبوں میں دونوں ممالک کے مابین جو تعاون شروع ہوا تھا وہ اب بڑھ کر بہت بڑی شراکت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ متعدد بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں میں بھارت کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ مقام حاصل ہے، ان بڑے ممالک میں امریکہ، چین، جرمنی، جاپان، روس اور فرانس قابل ذکر ہیں، جن عالمی اداروں میں بھارت کو بڑی طاقتوں کے ساتھ رکنیت حاصل ہے ان میں G-20,BRICS ، ایس سی او اور آسیان شامل ہیں، عالمی اداروں میں ان سرگرمیوں کے باعث بلا لحاظ اس بات کے کہ بھارت نہتے کشمیریوں پر کیسے مظالم ڈھا رہا ہے ، بین الاقوامی سطح پر بھارت کے اثر ونفوذ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔

اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین جو کشیدگی جاری ہے اس کا بڑی طاقتوں کو اس وقت خیال آیا جب پاکستان نے بھارت کا ایک جیٹ طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو گرفتار کرلیا، کسی ملک نے اس بات پر بھارت کی مذمت نہیں کی کہ اس نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے اس کی خود مختاری کو پامال کیا، اس کے بجائے تمام بڑی طاقتوں نے دونوں ممالک سے اپیل کی کہ وہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکیں، درحقیقت ان ممالک کو یہ اپیل دونوں ممالک سے نہیں بلکہ صرف بھارت سے کرنی چاہیے تھی کیونکہ جارحیت بھارت نے شروع کی تھی، لیکن افسوس بڑے ممالک نے جارحیت کرنے والے بھارت اور اس کا شکار ہونے والے پاکستان کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر مسلسل بہیمانہ مظالم ڈھا کر انہیں قابل رحم حالت تک پہنچا دیا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جس بربریت کا ارتکاب کر رہا ہے، اس پر بڑی طاقتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، بالکل ایسا ہی طرز عمل بھارت نے آزادی کے طلبگار کشمیریوں کے ساتھ اختیار کیا ہے، وہ پوری سفاکی اور مجرمانہ بے پروائی کے ساتھ کشمیریوں کو کچل رہا ہے اور عالمی برادری کانوں میں روئی ٹھونسے بیٹھی ہے ، بھارت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو ‘‘پڑوسی ملک کا ایجنٹ’’ قرار دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی مکمل طور پر مقامی ہے ، بھارتی فورسز سے ٹکرانے والے نوجوانوں نے بندوقیں دیکھی ہیں یا پھر بھارتی سکیورٹی فورسز۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ کسی بھی بڑی طاقت نے کبھی مظلوم کشمیریوں کی آواز پر کان نہیں دھرے ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے نزدیک ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے والے ملک (بھارت) میں موجود تجارتی اور اقتصادی مواقع بھارتی ظلم و ستم کے مارے چند لاکھ کشمیریوں کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت اور وقعت رکھتے ہیں، ہاں اگر کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی وجہ سے ان بڑی طاقتوں کے تجارتی اور اقتصادی مفادات پر ضرب پڑتی تو یہ طاقتیں آسمان سر پر اٹھالیتیں، لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے کشمیریوں کا لہو خاک کا رزق بن رہا ہے اور بڑی طاقتیں صرف تماشا دیکھ رہی ہیں۔ دوسری جانب بھارت ہے جو اسرائیلی عسکری مشیروں کے سرگرم تعاون اور اسرائیلی اسلحے سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیریوں پر وحشیانہ مظالم جاری رکھے ہوئے ہے ، بھارت کو انسانی حقوق کی کوئی پروا ہے نہ اس سے کوئی پوچھنے والا ہے ۔

اس ضمن میں چھٹی اہم بات بہت تشویشناک ہے ، گلوبل ٹائمز میں شائع ایک مضمون میں ‘‘بیجنگ کا پیغام ’’ درج ہے ، اگر یہ پیغام چینی حکومت کا تازہ موقف ہے تو پاکستان کیلئے بے انتہا تشویش کا باعث ہے ، پیغام یہ ہے کہ ‘‘ چین کیلئے پاکستان اور بھارت دونوں عزیز ہیں، لہٰذا چین کیلئے ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرفداری ممکن نہیں ہے ’’، ہرچند کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا تنازع ابتدا سے موجود ہے لیکن اس معاملے پر اب پاکستان اور بھارت کے مابین جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ کہیں جنوبی ایشیا کے بارے میں چین اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور نہ ہوجائے ، کیونکہ اب کسی ایک فریق کی حمایت چین کیلئے مشکل ہوتی جارہی ہے ،خیال یہ ہے کہ عمومی طور پر چین مصالحت کرانے کی پالیسی اپنالے گا، تاہم اگر پاک بھارت کشیدگی بہت طویل ہوگئی تو ظاہر ہے چین کی پالیسی پر اس کے اثرات ضرور ہوں گے ، چین کے ادارہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ تحقیق کار فیو زیاؤکیانگ نے کہا ہے خطے کے دونوں ممالک کے مابین مصالحت کرانے کا یا ثالث کا کردار ادا کرنا چین کیلئے موجودہ صورتحال میں بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ متعدد پاکستانی عہدیداروں کو اس بات پر بے حد حیرت ہو لیکن اور انہیں یہ خیال ہو کہ اب چین نے بھی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے ، لیکن بات کی تہہ تک پہنچنے اور اس صورتحال کے اسباب تلاش کرنے کیلئے انہیں معروضی حقائق کا بغور جائزہ لینا ہوگا، انہیں یقیناً معلوم ہوگا کہ پاکستان کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں کبھی کبھی اس خیال کی باز گشت ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل صرف اقتصادی ترقی میں مضمر ہے ، یہ ایک بڑا مقصد ہے جسے حاصل کرنے کیلئے شاید یہ ضروری ہوجائے کہ جن ممالک کے ساتھ اب تک مخالفت رہی ہے ان کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کی کوئی راہ نکالنی پڑے ، لیکن ظاہر ہے یہ صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب یہ طے کرلیا جائے کہ پاکستان اب ‘‘سکیورٹی سٹیٹ’’ نہیں بلکہ دیگر لاتعداد ممالک کی طرح ایک عام ملک ہوگا، ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی صورت میں دہشت گردی میں ملوث تمام غیر سرکاری عناصر ( نان سٹیٹ ایکٹرز ) کا کردار مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا، کیونکہ یہ عناصر ملکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دشمن کے جیٹ جہازوں سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ، لیکن خیال رہے کہ پلوامہ کا واقعہ مقامی عسکریت پسندوں کی کارروائی تھی، پاکستان کو ایک آزاد یاست کی حیثیت سے پورا حق حاصل ہے کہ وہ ایسی ہر تنظیم کو جس قدر جلد ہوسکے ختم کرادے ، کیونکہ ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے پاکستان یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ کوئی بھی تنظیم عالمی سطح پر اس کی ساکھ اور تعلقات کیلئے سنگین نقصانات کا باعث بنتی رہے ، لیکن محض خواہش کافی نہیں کیونکہ یہ ایک بڑا مقصد ہے جو سول اور فوجی قیادت کی مشترکہ اور سرگرم کوششوں سے ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔