جاتی امرا کا ڈرائنگ روم سیاست کا رخ متعین کرے گا

Last Updated On 27 March,2019 09:27 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) ایک ہی دن میں سپریم کورٹ سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کیلئے ضمانت اور لاہور ہائیکورٹ سے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز تو پہلے ہی سیاسی اور پارلیمانی محاذ پر سرگرم ہیں لیکن چھ ہفتوں کیلئے نواز شریف کی ضمانت پر بڑا سوال یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ ان کیلئے جیل کا درازہ تو کھلا ہے کیا ان پر سیاست کے دروازے بھی کھلیں گے اور ریلیف کا یہ عمل خود مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کی سیاست اور سیاسی کردار پر کیا اثرات پیدا کرے گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا ٹرین مارچ ملکی سیاست میں کیا رنگ لائے گا اور یہ کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں آنے والے حالات میں کوئی موثر اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں گی، عمران خان کی جانب سے دباؤ کا مقصد کیا تھا۔
ن لیگ نے اب تک بظاہر اس معرکے میں اپنے حریف عمران خان اور حکومت پر احتسابی کٹہرے میں کھڑے ہوئے اخلاقی برتری حاصل کر لی ہے ۔ نواز شریف مقدمات بھی بھگت رہے ہیں، عدالت کے ترازو کا احترام بھی کر رہے ہیں اور ایک اٹل سیاسی حقیقت بھی بنے ہوئے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے سیاسی اضطراب اور بے چینی نے انہیں خاموش نہ بیٹھنے دیا تو پھر ان کیلئے جیل کے دروازے تو کھلتے اور بند ہوتے رہیں گے مگر ان پر سیاست کا دروازہ مستقل کھلا رہے گا۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر نواز شریف نے اپنی سیاسی چالیں ٹھیک طرح سے چلیں تو پھر جاتی امرا کا ڈرائنگ روم سیاست کا رخ متعین کرے گا اور سیاسی تاریخ میں پہلی بار حکومت کا ‘‘واٹر لو’’ ثابت ہو سکتا ہے۔

اس مرحلے پر نواز شریف یقینًا سیاسی اختلاف رائے کو بالائے طاق رکھ کر حکومت پر پہلے سے برہم آصف زرداری کی جانب ہاتھ بڑھائیں گے جس کیلئے شہباز شریف پہلے سے راہ ہموار کر چکے ہیں۔ اگر نواز لیگ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا متوقع فیصلہ کر لیا تو پھر جھاڑو وقت سے کافی پہلے پھر جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کے بجائے حکومت کی قربانی کی نوبت آ جائے۔ پیپلز پارٹی کے بھٹو کارواں اور شریف فیملی کے عدالتی فیصلوں نے وہ گفتگو و لہجہ خوب سمجھا دیا جسے حکومتی وزرا اور خود وزیراعظم نے اختیار کر رکھا تھا۔ این آر او کا شور حکومتی محفلوں میں برپا تھا اور وزیراعظم بلیک میلنگ اور دباؤ کے اشارے دے رہے تھے۔

اس صورتحال سے لگ رہا ہے کہ حکومت اس احتساب میں محض ایک فریق ضرور ہے مگر ان معاملات پر حقیقی فریق اور اصلی مدعی کوئی اور ہے جو سیاسی حرکیات پر پردے کے پیچھے نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ صورتحال منتخب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے نہ تو سیاست کی مہار اس کے ہاتھ میں ہے، نہ معیشت کا بحران اس کی دسترس میں ہے اور نہ ہی گورننس کا میدان اس کے قابو میں ہے۔ ایسی صورتحال میں مقدمات سے پریشان اپوزیشن نے تھوڑی سی بصیرت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تو پھر عمران خان حکومت چاروں شانے چت بھی ہو سکتی ہے۔