کوالالمپور کانفرنس کے تناظر میں سعودی وزیر خارجہ کا دورہ اہم

Last Updated On 26 December,2019 12:53 pm

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود پاکستان کے اپنے پہلے دورے پر آج آرہے ہیں، ان کی وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود سمیت دیگر حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتیں ہوں گی، یہ دورہ اس صورتحال میں ہونے جا رہا ہے جب کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کے حوالے سے ایک تاثر رہا کہ شاید اسلام آباد نے سعودی دباؤ کی وجہ سے شرکت نہ کی، سعودی وزیر خارجہ کے دورے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے، کیا پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان واقعتاً کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ؟ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے رشتے تب سے استوار ہیں جب پاکستان وجود میں آیا۔

حرمین شریفین کی وجہ سے حکومتیں ہی نہیں پاکستان کے عوام بھی سعودی عرب سے ایک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ سعودیہ کی جانب سے پاکستان کی معاشی معاونت کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ خصوصاً جب پاکستان نیوکلیئر پاور بنا اور امریکا کی جانب سے امداد روک دی گئی تو یہ سعودی عرب تھا جس نے دباؤ کے باوجود تیل کی فراہمی جاری رکھی اور ممکنہ تعاون بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہر برے وقت میں سعودی عرب کا ساتھ دیا۔ یمن کے مسئلہ پر سعودی عرب پاکستان سے مشروط حمایت چاہتا تھا مگر اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے مشروط حمایت کے براہ راست اعلان کی بجائے سعودی یمن چپقلش کے خاتمہ کے کردار کیلئے اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لانے کا عندیہ دیا اور حال ہی میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نیا موڑ ملا، سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان پر 20 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے 7 معاہدے بھی ہوئے۔ محمد بن سلمان نے پاکستان کے بعد بھارت جا کر پاکستان سے دوستی کا ذکر کر کے انہیں بھی باور کرایا کہ پاکستان ان کیلئے کتنا اہم ہے۔

اب بنیادی بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ کوالالمپور کانفرنس کے انعقاد پر سعودی عرب کے تحفظات پیدا ہوئے۔ مذکورہ کانفرنس کے انعقاد اور ایجنڈا کی تشکیل کے حوالے سے پاکستان کا کردار رہا لیکن بعد ازاں کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر یقینا سعودی عرب کے اس کانفرنس کے حوالے سے تحفظات تھے اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان بھی اس کانفرنس کا حصہ بنے۔ کوالالمپور کانفرنس کو او آئی سی کا متبادل پلیٹ فارم سمجھتے ہوئے سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں نے اس سے فاصلہ کیا اور بعد ازاں پاکستان کو بھی مجبوراً اس کانفرنس میں عدم شرکت کا اعلان کرنا پڑا، جس سے بہت سے سوالات اٹھے اور اب تک اس حوالے سے چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ ترک صدر طیب اردوان کی جانب سے اس بیان پر کہ پاکستان نے سعودی عرب کے دباؤ کے باعث ملائشیا سمٹ میں شرکت نہیں کی، پاکستان میں سعودی سفیر کی فوری طور پر اس پر وضاحت آئی کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے۔

وزیر خارجہ کا دورہ اسی تناظر میں ہے اور اس امر کا امکان بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب اور پاکستان کے بعض ذمہ داران کے ایک دوسرے ملک کے دورے بھی ہوں کیونکہ سعودی عرب کسی طور پر بھی پاکستان کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتا جبکہ پاکستان نے بھی دیگر مسلم ممالک کی ناراضگی مول لیتے ہوئے اپنا وزن سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے پلڑے میں ڈال کر ثابت کیا ہے کہ وہ مسلم ممالک کو تقسیم سے بچانے اور ان کے درمیان تحفظات کے ازالہ کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔
 

Advertisement