متنازع شہریت قانون، بھارت بھر میں احتجاج، طلبہ کے ’’شرم کرو‘‘ کے نعرے، تعلیمی نظام ٹھپ

Last Updated On 16 December,2019 08:57 pm

نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت میں شہریت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا، مختلف ریاستوں میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں، جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی سمیت بڑی ریاستوں کی بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے بھی احتجاج کیا۔ متنازع شہریت قانون پر بنگلا دیش کی اپوزیشن پارٹی نے این آر سی بل کو ملکی خود مختاری کیخلاف قرار دیدیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی مختلف ریاستوں میں متنازع شہریت قانون کے خلاف تحریک نے بھارتی سیکولر ازم کا چہرہ مسخ کر دیا۔ کانپور، احمد آباد، لکھنو، سرت، مالاپورم، آراریہ، حیدرآباد میں عوام سراپا احتجاج ہیں۔ بھارتی علاقوں گایا، اورنگ آباد، اعظم گڑھ، کالی کٹ، یوات مل، گووا، مظفر نگر میں مظاہرے پر تشدد شکل اختیار کر گئے۔

بھارت میں شہریت کے متنازع شہریت قانون کو حزب اختلاف سمیت دیگر سماجی حلقوں نے مسترد کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں اور عوام کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے جسکی وجہ سے ملک بھر کے مختلف شہروں میں مظاہروں کے ساتھ ساتھ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ احتجاج کے دوران 8 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہیں جن میں متعدد کی حالت نازک ہے جنہیں مختلف ہسپتالوں میں طبی امداد کے لیے منتقل کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر وحشیانہ تشدد، بالی ووڈ کے اداکاروں کا ضمیر جاگ اُٹھا

بھارتی میڈیا کے مطابق جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے شروع ہونے والا احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا ہے، طلبہ کی بڑی تعداد ملک بھر میں کالے قانون کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔

علی گڑھ یونیورسٹی سے شروع ہونے والے احتجاج کے بعد چندی گڑھ کی پنجاب یونیورسٹی، احمد آباد کی احمد آبادیونیورسٹی، وارنسی کی بی ایچ یونیورسٹی، ممبئی کی ٹس یونیورسٹی، آئی آئی سی یونیورسٹی، ممبئی یونیورسٹی، بنگلورو کی جین یونیورسٹی، دہلی کی دہلی یونیورسٹی، مولانا آزاد میڈیکل کالج، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،پٹنہ کی پٹنہ یونیورسٹی، لکھنؤ کی دارالعلوم ندواتلعلوم علمائ یونیورسٹی، گواہٹی کی اے اے ایس یو ستیہ گڑھ یونیورسٹی، کلکتہ کی جادھو پور یونیورسٹی، حیدر آباد کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، چنائی کی آئی آئی ٹی مدارس، مدارس یونیورسٹی، لویولا کالج سمیت دیگر یونیورسٹی میں احتجاج کیا گیا۔

دہلی یونیورسٹی میں ہونے والے احتجاج کے دوران ہزاروں کی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی، یہ احتجاج دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے کیا گیا جہاں پر طلبہ کی بڑی تعداد نے ’’شرم کرو‘‘ کے نعرے لگائے۔

دوسری جانب مظاہرین نے مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں بیلڈنگا پولیس سٹیشن پر پتھراؤ بھی کیا۔ مرشد آباد ریلوے سٹیشن کو نقصان پہنچانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مرشدآباد میں کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ ممبئی میں مختلف مقامات پر مظاہرے ہوئے ہیں اور تقریباً 50 افراد کو میرین ڈرائیو پر ہونے والے مظاہرے سے قبل حراست میں لیا گیا۔ حیدرآباد اور سکندرآباد میں بھی مظاہرے ہوئے، طلبہ تنظیم ایس آئی او کے کارکنان نے بڑی تعداد میں ریلی میں شرکت کی اور نو ’سی اے بی‘ اور ’نو این آر سی‘ کے نعرے لگائے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی مظاہرے ہوئے جہاں طلبہ اور اساتذہ نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام ضلع مجسٹریٹ کو یادداشتیں پیش کیں۔

دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پر امن مارچ پر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا جس میں تقریباً 150 افراد زخمی ہو گئے۔ یونیورسٹی میں جاری امتحانات ملتوی کر دیے گئے. پورے علاقے میں بس سروس بند ہے۔‘مظاہرین نے ’دستور بچاؤ‘، ’مذہبی تفریق منظور نہیں‘، ’سی اے بی انڈیا کے خلاف سازش ہے‘ جیسے درج نعروں والے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔

دوسری طرف بنگلا دیش کی حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت بی این پی کے جنرل سیکریٹری مرزا فخر الاسلام عالمگیر کا کہنا ہے کہ بھارتی ریاست آسام میں نافذ کیا گیا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) ہماری ملکی آزادی اور خودمختاری کے لیے خطرہ ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بی این پی کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ این آر سی کا بنیادی مقصد لبرل اور سیکولر سیاست کو تباہ کر کے مذہبی برادریوں کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ بل بنگلا دیش نہیں بلکہ پورے برصغیر کو غیر مستحکم کر دے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بنگلا دیش کے وزیر خارجہ نے عبد المومن اور وزیر داخلہ اسد الزمان نے بھارت کے دورے منسوخ کر دیئے ہیں۔