شہریت ایکٹ: بھارت بھر میں احتجاج، مودی ہٹاؤ مہم شروع،ہلاکتیں14 ہو گئیں

Last Updated On 20 December,2019 07:26 pm

نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت میں کالے قوانین کے خلاف احتجاج میں شدت آ گئی ہے، بے بس انتظامیہ نے مظاہرین پر نظر رکھنے کے لیے ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے، ہلاکتوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے جبکہ ملک میں ’’مودی ہٹاؤ مہم‘‘ کا آغاز ہو گیا ہے۔

بھارت میں متنازع شہریت ایکٹ کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد احتجاج میں شدت آ گئی ہے، جمعے کو مزید مظاہروں کی کال سامنے آنے کے بعد سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے جبکہ پولیس نے سینکڑوں شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد نو ہو گئی ہے جبکہ ہزاروں شہری زخمی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’گلف نیوز‘‘ کے مطابق اب تک ہلاکتوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے، 5افراد آسام اور دو ریاست کاناٹکا میں جان کی بازی ہار گئے، تین منگلورو میں مارے گئے تھے جبکہ جمعہ کو احتجاج اور جھڑپوں میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 4افراد کی لاشیں میرٹھ کے ہسپتال میں چار لاشیں لانے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ میرٹھ ہسپتال کے حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے شہریوں کا پوسٹمارٹم کیا جا رہا ہے، دو شہری ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں ہلاک ہوئے تھے۔

نئی دہلی میں آج صبح وزیر داخلہ اُمیت شاہ کی رہائشگاہ کی جانب پیدل مارچ کرنے والے کانگریس پارٹی کے قافلے کو روکا گيا اور سابق صدر پرناب مکھرجی کی بیٹی سرمشٹھا مکھرجی کو حراست میں لے لیا گیا۔ بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کو گزشتہ روز ہی معطل کر دیا گیا تھا جبکہ ریاست کرناٹک اور یو پی میں آج دائرے کو مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق پابندیوں کے باوجود نئی دہلی کے متعدد علاقوں سے مظاہروں کی خبریں ہیں۔ نماز جمعہ سے قبل تاریخی جامع مسجد کے باہر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے جہاں نوجوان دلت رہنما چندر شیکھر آزاد بھی پہنچے اور شہریت سے متعلق نئے ایکٹ کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ مظاہرین کی طرف سے ’’مودی ہٹاؤ مہم‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔

نئی دہلی میں مظاہرے کی قیادت کرنے والے شہری فیروز خان کی طرف سے صدائیں بلند کی گئیں کہ مسلمانوں کے خلاف منظور کیے گئے بل کو واپس لیا جائے بصورت دیگر احتجاج کا دائرہ مزید پھیلا دیا جائے گا۔

ایک اور شہری فیصل احمد کا کہنا تھا کہ بھارتی متنازع ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں، بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی حکومت کو آخر کار جھکنا ہو گا اور فیصلے کو واپس لینا ہو گا۔

جامع مسجد کے علاقے میں آج ہر جانب پولیس کا پہرہ ہے اور پولیس ڈرونز کے ذریعے پورے علاقے کی نگرانی کر رہی ہے۔ شہر میں آج انڈیا گیٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آس پاس بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، انتظامیہ نے نمٹنے کے لیے ان علاقوں کے آس پاس کے تمام میٹرو اسٹیشنز کو بند کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارت میں کالے قانون کے خلاف احتجاج جاری تھا جس کے باعث تین افراد ہلاک ہو گئے تھے، ایک شخص لکھنو میں جبکہ دو منگلور میں ہلاک ہوئے تھے۔ آسام میں اس سے قبل چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، اب تک ہلاکتوں کی تعداد نو ہو گئی ہے۔

جنوبی ریاست کرناٹک کے معروف شہر منگلورو میں حکام نے اتوار تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ کرفیو نافذ کرنے کی بڑی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ایک روز قبل دس ہزار سے زائد افراد نے ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کیا تھا جبکہ لکھنو کے بیشتر حساس علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔ یوپی کے سنبھل، علی گڑھ، اعظم گڑھ اور جیسے علاقوں میں ایس ایم ایس سروسز کو بھی بند کیا گيا ہے جبکہ پوری ریاست میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کس تحت چار سے زیادہ افراد کو ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔

شمال مشرقی ریاست آسام میں تقریبا ایک ہفتے کے بعد بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کو بحال کر دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے مظاہروں کا سلسلہ شمال مشرقی ریاستوں میں شروع ہوا تھا، جہاں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
 

Advertisement