سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا پورا دور سوالیہ نشان بن چکا ہے: شرجیل میمن

Published On 25 April,2023 02:04 pm

کراچی: (دنیا نیوز) وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ آڈیو لیکس کے بعد کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، سوال اٹھ رہے ہیں کہ فیصلے کس طرح ہو رہے ہیں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا پورا کردار ایک سوالیہ نشان ہے۔

کراچی میں مرتضیٰ وہاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن نے کہا کہ عمران خان نے انٹرویو میں خطرناک انکشافات کیے، ایوان صدر سازشوں کا گڑھ بن چکا تھا، ایوان صدر میں سابق جنرل کی سابق وزیراعظم سے ملاقات ہوئی، کہا گیا کہ سابق جنرل کے کہنے پر 2 حکومتیں گرائی گئیں۔

شرجیل میمن نے کہا کہ عمران خان کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آج سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی میبنہ آڈیو لیک ہوئی ہے، ان کے تمام سوموٹو نوٹس پر سوالیہ نشان بن گیا ہے، عدالتوں میں مخالفین کی پگڑیاں اچھالی گئیں، کیا سابق چیف جسٹس کے فیصلوں کو واپس نہیں لینا چاہیئے، سابق چیف جسٹس نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔

وزیراطلاعات سندھ کا مزید کہنا تھا کہ یہ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا حکم دینے والے کون ہوتے ہیں، یہ سارے احکامات غیر آئینی اور غیرقانونی ہیں، ملک میں جوڈیشل کو لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، پہلے سے کٹھ پتلی تھے، پہلے کسی اور کی انگلیوں پر ناچتا تھا، اب کسی اور کی انگلیوں پر ناچنا چاہتا ہے، عمران خان کے بیان پر سوموٹو نوٹس ہونا چاہئے۔

آئین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے: مرتضیٰ وہاب
وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ عمران خان سے چھپ کر ملاقات کرنے والے احتیاط کریں، ملک میں ضمیر کے نہیں آئین و قانون کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے، کیا عدالتوں کو آئین میں ترمیم کی اجازت ہے، کیا ملک کے تقدیر کے فیصلے عدالتیں کریں گی، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نظریہ ضرورت سے بہت نقصانات ہوئے ہیں، اسے دفن کرنا ہوگا، پارلیمان کا احتساب ہوسکتا ہے توعدلیہ کا کیوں نہیں، قانون بننے سے پہلے اس کی عملداری کو روک دیا جاتا ہے، بل کا نوٹیفکیشن نہیں ہوتا، اسے معطل کر دیا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ کسی کو نااہل اور کسی کو صادق و امین قرار دیتے ہیں، سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس نہیں، تمام ججز صاحبان ہیں۔

 

Advertisement