امیر المومنین ، خلیفہ دوم .... شہادتِ حضرت عمر فاروقؓ

Published On 20 July,2023 09:17 am

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) خلیفہ راشد ثانی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کیلئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے، سیدنا عمرؓ بن خطاب تاریخِ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں، وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کر دیئے جو وحی کا حصہ بن گئے، قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔

تعارف: آپؓ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے، آپؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرمﷺ سے جا ملتا ہے، آپؓ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہو چکی تھیں، آپؓ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال 35 سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔

محبوبِ خدا و مرادِ رسولﷺ: حضرت سیدنا عمر فاروقؓ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کیلئے رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، حضرت عمرؓ اگلے دن مشرف بہ اسلام ہوگئے (جامع ترمذی، کتاب المناقب،حدیث: 3683)۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا: اے محمدﷺ آسمان والوں نے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (سنن ابن ماجہ، باب فضل عمر، رقم: 103)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج ہماری قوم آدھی رہ گئی ہے۔ (مستدرک حاکم: 4494)

آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ بیشک حضرت عمرؓ کا قبول اسلام ہمارے لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم! ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ اسلام لائے، پس جب وہ اسلام لائے تو آپؓ نے مشرکین مکہ کا سامنا کیا، یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا، تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم: 8820)۔

فضائل و مناقب: سیدنا عمر فاروقؓ کے فضائل میں بہت ساری احادیث وارد ہیں، ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ بن خطاب ہوتا (جامع ترمذی، کتاب المناقب، حدیث:3686)۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کیلئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں، پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرائیلؑ و میکائیلؑ ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (جامع ترمذی: 3680)

حضرت عمر فاروقؓ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، حضور نبی اکرمﷺ نے نہ صرف آپؓ کیلئے جنت کی بشارت دی بلکہ حشر کے دن بارگاہ ایزدی میں آپؓ کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا اس کے بھی احوال بیان فرمائے، حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمرؓ ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمرؓ ہے ( ابن ماجہ: 104)۔

حضرت عمر فاروقؓ کی رائے اور قرآنی احکام کا نزول: حضرت سیدنا عمر فاروقؓ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے، قرآن پاک کے متعدد احکامات آپؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کیلئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی۔ میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہﷺ کاش ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو حکم نازل ہوا۔ (اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) اور پردے کی آیت، میں نے حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کاش آپﷺ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی اور حضور نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات نے رشک کے باعث آپ ﷺ پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا ’’اگر وہ آپؓ کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب انہیں اور بیویاں عطا فرما دے، جو اسلام میں آپ سے بہتر ہوں‘‘ تو یہی آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری:4213)۔

حضرت قبیصہ بن جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروقؓ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی کتاب اللہ کا قاری دیکھا ہے نہ ان سے بڑھ کر کوئی دین کا فقیہ دیکھا ہے۔

آپؓ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے، آپؓ ادبیات میں ذوق لطیف کے حامل اور شعر کے اعلیٰ نقاد تھے، ابتداء میں بلیغ شعر کہتے مگر دینی خدمت نے اتنا غلبہ پا لیا کہ اس ذوق کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تھا، آپؓ شعر جاہلیت میں اصلاح کے علمبردار تھے، فنون حرب اور سپہ گری میں شجاعان عرب میں نہایت ممتاز و منفرد تھے، زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ فیضان نبوت سے سیرابی میں بسر کیا، فقہ اور اجتہاد میں بلند مقام رکھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جا کر ملتے ہیں، آپؓ کے تربیت یافتہ تھے۔

علمی مقام: اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا، جب حضور نبی اکرمﷺ مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف 17 آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا، چنانچہ امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے فرامین، آپؓ کے خطوط، آپؓ کے خطبات اور توقیعات، اب تک سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، جن سے آپؓ کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحریر و تقریر کا ایک اندازہ ہوتا ہے، فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں، اسی طرح آپؓ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔

شہادت کی بشارت: حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کی بشارت حضور نبی مکرمﷺ نے خود دی، حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی کریمﷺ کوہ احد پر تشریف لے گئے، آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اورعثمان غنیؓ تھے، ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آ گیا، آپﷺ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: ’’اے احد! ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں‘‘ (صحیح بخاری، کتاب فضائل صحابۃ: 3483)

جنازہ وتدفین: 26 ذوالحجہ 23ھ کو آپؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا، آپؓ شدید زخمی ہوگئے اور 4 دن تک موت و حیات کی کشمکش میں رہے، آخری وقت پر آپؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہؓ سے کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو عمرؓ آپؓ کو سلام کہتا ہے، سلام کرنے کے بعد عرض کرنا کہ عمر بن خطابؓ آپؓ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے، جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی زارو قطار رو رہی ہیں، انہوں نے حضرت عمرؓ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی، حضرت اُم المومنینؓ نے فرمایا میں نے وہ جگہ اپنی قبر کیلئے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمرؓ کو خود پر ترجیح دیتی ہوں کہ انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے۔

حضرت عبداللہؓ واپس پہنچے تو حضرت سیدنا عمرؓ نے فرمایا: جب میری روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے تو ایک بار پھر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اجازت مانگنا، اگر وہ بطیب خاطر اجازت دے دیں تو مجھے حجرہ اقدس میں دفن کر دینا اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لے جا کر دفنا دینا، یکم محرم الحرام 24ھ کو اپنے بیٹے سے کہا: میری پیشانی زمین سے لگا دو۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان، جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں ، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں ، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 25 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔