لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) زندگی کے سفرمیں انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں سے بیماری بظاہر ایک ایسی آزمائش ہے جسے اکثر لوگ ایک مشکل یا تکلیف دہ امر تصورکرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں کی آزمائش کی مختلف صورتیں ہیں۔
قرآن مجیدمیں ہے: ’’ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، کچھ مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘ (البقرہ:155)
اسلام میں بیماری کو ایک آزمائش ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے ایک عظیم نعمت بھی سمجھا جاتا ہے، ایک مومن کیلئے بیماری بہت سے روحانی اور اخلاقی فوائد کا باعث بنتی ہے جو دنیا و آخرت میں نفع کا باعث ہے، احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان پر جب کوئی مصیبت، دکھ اور پریشانی آئے تو اس سے اس کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں، حتیٰ کہ اگر اسے ایک کانٹا بھی چبھے تو یہ بھی خطاؤں کی معافی اور بلند درجات کا سبب بنتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’مومن کی مثال لہلہاتی ہوئی نرم ونازک کھیتی کی مانند ہے، کسی طرف سے بھی آنے والی ہوا اسے جھکا دیتی ہے، جب وہ سیدھی ہوتی ہے تو اسے دوبارہ کسی مشکل اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے برعکس فاجر آدمی کی مثال صنوبر کے سیدھے اور مضبوط درخت کی مانند ہے (جو ہوا کے جھونکوں سے سرنگوں نہیں ہوتا، بلکہ) اللہ جب چاہے اسے اکھاڑ پھینکتا ہے‘‘ (صحیح بخاری:5643)۔
بیماری گناہوں کی بخشش کا ذریعہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو لاتعداد نعمتیں عطا کیں، ان میں کچھ نعمتیں ایسی بھی ہیں جو انسان کو زحمت معلوم ہوتی ہیں جبکہ وہ بھی حقیقت میں رحمت ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی بھلائی کیلئے اتاری گئی ہیں، تندرستی اور بیماری یہ دونوں انسان کیلئے بالکل قدرتی چیزیں ہیں، انسان صحت مند بھی رہتا ہے، بیمار بھی ہوتا ہے، یہ نہ مایوس ہونے کی چیز ہے اور نہ نفرت کرنے کی، تندرستی اللہ کی طرف سے بندے کیلئے ایک راحت ہے تو بیماری بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے، تندرستی میں انسان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اسی طرح بیماری میں بھی صبر سے کام لینا چاہیے۔
حضرت صہیبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کا معاملہ تو تعجب خیز ہے کہ اس کا ہر کام خیر پر مبنی ہے اور یہ اعزاز صرف مومن ہی کو حاصل ہے، اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اس پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے، اور یہ شکر بجا لانا اس کیلئے نہایت مفید ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت یا پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے، اس صبر کرنے میں بھی اس کیلئے خیر و برکت ہے۔(صحیح مسلم: 2999)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اس کو اپنی طرف سے مصائب پہنچاتا ہے (صحیح بخاری: 5645)، علامہ بدرالدین عینیؒ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ انسان کو مصیبت پہنچاتا ہے تاکہ اس کو گناہوں سے پاک کر دے۔ (عمدۃ القاری، ج21، ص314)
مصائب وآلام پر فضل خداوندی
مومن اس دنیا میں جسمانی و روحانی طور پر مختلف عوارض میں مبتلا رہتا ہے، ان لاحق ہونے والے عوارض پر بندہ مومن کیلئے بہت سی فضیلتیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے حاصل ہوتی ہے۔
کانٹا چبھنے پر اجر
حضرت ابو سعید خدریؓ اور ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو کوئی بھی بیماری، تکلیف، تھکاوٹ، غم، پریشانی یا ایذا وغیرہ لاحق ہو، حتیٰ کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھے، تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے عوض اس مومن کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔(صحیح بخاری:5641)
بخار گناہوں کا کفارہ
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ حضرت ام السائبؓ یا ام المسیبؓ کے پاس آئے، تو آپﷺ نے فرمایا: اے ام السائبؓ یا ام المسیبؓ! تم کیوں آوازیں نکال رہی ہو؟ انہوں نے کہا: بخار، اللہ اس میں برکت نہ دے، آپﷺ نے فرمایا:تم بخار کو برا نہ کہو، کیونکہ یہ بنو آدم کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے جیسا کہ بھٹی لوہے کے زنگ کو مٹا دیتی ہے۔(صحیح مسلم: 2575)
بیماری کی وجہ سے امورِ خیر سے توقف پر اجر
کسی بیماری کی وجہ سے خیر کے کاموں سے اگر انسان رک جاتا ہے تو رحمت خدواندی سے اس کیلئے ایام بیماری میں خیر کے کاموں پر اجر عطا ہوتاہے، حدیث مبارکہ ہے، حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جب بندے کے جسم کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تو فرشتے سے فرماتا ہے، اس کے ان نیک اعمال کو لکھو جو یہ ( تندرستی میں ) کیا کرتا تھا، پس اگر اس کو اللہ تعالیٰ شفاء دے دے، تو اس کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے اور اس کو پاک کر دیتا ہے اور اگر اس کی روح کو قبض کر لے تو اس کی مغفرت کرتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 10831)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کے حال پر تعجب ہے، اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کو بیماری میں کتنا اجر ملتا ہے تو وہ پسند کرے گا کہ وہ بیمار ہی رہے، حتیٰ کہ اپنے رب سے ملاقات کرے، بے شک جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کراماً کاتبین سے فرماتا ہے: میرے بندہ کیلئے وہ عمل لکھو جو وہ دن اور رات میں کیا کرتا تھا اور اس میں بالکل کمی نہ کرو، اس کو اس کا بھی اجر ہوگا جو اس کو نیک اعمال سے روک دیا گیا اور جو وہ عمل کیا کرتا تھا اس کا بھی اجر ہوگا۔( المعجم الاوسط للطبرانی ،ج3، ص14)
بندہ مؤمن پر بیماری یا مصیبت طاری کر کے بلند مقام پر فائز کرنا
بندہ مومن کو بعض دفعہ بیماریوں، پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے، ان سب کا مقصد اللہ تعالیٰ کی جانب سے دیئے جانے والے بلند مقام کا عطا کرنا ہوتا ہے، حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت خالدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی بندے کا کوئی مرتبہ ہو جس پر وہ نہ پہنچا ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم میں، اس کے مال میں اور اس کی اولاد میں کوئی مصیبت طاری کر دیتا ہے، پھر وہ بندہ اس پر صبر کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ بندہ اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بندے کا پہلے مرتبہ ہوتا ہے۔( المعجم الاوسط :1085)
بیماری کے سبب گناہوں کا سقوط
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جس مسلمان کو کسی مرض کی اذیت پہنچتی ہو یا کوئی اور مصیبت پہنچتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے، حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو مسلمان بھی کسی بیماری سے گرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں سے پاک کر کے اٹھاتا ہے۔ (المعجم الکبیر لطبرانی: 7485 )
حضرت شداد بن اوسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کو کسی بیماری میں مبتلا کرتا ہوں، اور وہ میری حمد کرتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے، تو وہ اپنے بستر سے جس دن اٹھے گا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوگا جیسے وہ اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو (مسند احمد: 17118)۔
بیماری اور اس کا علاج
بیماری جسم یا ذہن کی کسی خرابی یا تکلیف کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان کی صحت متاثر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض ایسا نہیں پیدا کیا جس کی دوا نہ پیدا کی ہو مگر جب امر خدواندی پہنچتا ہے تو دوا اپنا اثر چھوڑ دیتی ہے، جس کے نتیجہ میں انسان دارفانی سے دار بقا کو سدھار جاتا ہے، حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے، جب دوا بیماری تک پہنچا دی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریض اچّھا ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم: 2204)
کسی مرض کی وجہ سے وفات
کسی بیماری کی وجہ سے موت کا واقع ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش اور قدرت کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی موت واقع نہیں ہوتی اور ہر شخص کا وقت مقرر ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔ (آل عمران: 185)، بیماری کے باعث وفات پا جانے والے شخص کو اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی رضا پر صبر کرنے والے اور اس کی رحمت کے طلبگار کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، رسول اللہﷺ نے بھی بیماری کو گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
بیماری جنت کے درجات کی بلندی کا سبب
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کچھ کیلئے آخرت میں بلند مقام کا فیصلہ کرتا ہے، مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں ہوتے جن کی وجہ سے وہ اس مقام کو پاسکیں، اس لئے بعض اوقات بیماریوں اور آزمائشوں میں مبتلا کر کے انہیں اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کے اس بلند مقام کے اہل ہو جائیں، اگرہم صبر، ثابت قدمی سے کام لیں، ثواب کی امید رکھیں اور اپنے خالق کے فیصلوں پر راضی رہیں تو یہ پریشانیاں اور بیماریاں ہمارے لئے رفعِ درجات کا ذریعہ ہیں۔
خلاصہ
مومن کیلئے بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت اور نعمت ہے، اس آزمائش کے ذریعے مومن کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے، بیمار سے درجات میں بلندی ہو جاتی ہے، انسان کے دل میں عاجزی اور اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے، وہ صبر واستقامت سیکھتا ہے اور اپنی آخرت کی تیاری میں مزید مشغول ہو جاتا ہے، اس طرح بیماری بظاہر تکلیف دہ ہونے کے باوجود ایک مومن کے ایمان اور روحانی ترقی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔