ہزاروں سال گزر گئے، 9 ایسی لاشیں جو آج بھی محفوظ

Published On 16 Sep 2015 07:43 PM 

دنیا میں جس شخص نے بھی پیدا ہونا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہ دارفانی چھوڑ کر جانا ہے۔ دنیا میں اربوں انسان آئے اور چلے گئے جن کی باقیات بھی آج باقی نہیں لیکن ایسے انسان آج بھی ہمارے لئے نشان عبرت کیلئے موجود ہیں جن کو مرے ہزاروں سال گزر گئے لیکن ان کی لاشیں آج بھی موجود ہیں۔

لاہور: (ویب ڈیسک) ضرب المثل عام ہے کہ انسان مرنے کے بعد مٹی میں دفن ہو کر مٹی بن جاتا ہے، لیکن دنیا میں ایسے بھی انسان ہیں جنھیں مرنے کے بعد بھی مٹی نے قبول نہیں کیا اور ان کی لاشیں ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی بالکل صحیح حالت میں موجود ہیں۔

سیِنٹ زیٹا:

 
عیسائیوں کے فرقے کیتھولک سے تعلق رکھنے والی سینٹ زیٹا کا انتقال 1272ء میں ہوا تھا۔ سینٹ زیٹا نے اپنی ساری زندگی لوگوں کی مدد میں گزار دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ایک چمدار ستارہ ان کے گھر کے اوپر سائبان بن گیا تھا جس کے بعد ان کی پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کر دی گئی تھی تاہم جب 308 سال کے بعد ان کی لاش کو ان کی قبر سے باہر نکالا گیا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کا جسم بالکل صحیح حالت میں موجود ہے۔ سینٹ زیٹا کو 1696ء میں ولی کا درجہ دیا گیا تھا۔ ان لاش کو آج بھی اٹلی میں ان کے آبائی علاقے Basilica di San Frediano میں دیکھا جا سکتا ہے۔
 
جان ٹورنگٹن:
 
 
برطانیہ سے تعلق رکھنے والا یہ آفیسر 1846ء میں زہر خوری کے باعث انتقال کر گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 22 سال تھی لیکن جب سائنسدان نے 138 سال کے بعد اس کی قبر کو کھودا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کی لاش بالکل صحیح حالت میں موجود ہے۔
 
لا ڈونسیلا:
 
 
لا ڈونسیلا کی لاش کو لگ بھگ پانچ سو سال قبل مغربی امریکا سے دریافت کیا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خاتون کی موت سخت سردی میں ٹھٹرنے کے باعث ہوئی تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے اس سے اچھی حالت میں لاش کو آج تک نہیں دیکھا ہے۔
 
داشی ڈورزو ایٹیگولوو:
 
 
بدھ مت سے تعلق رکھنے والے اس راہب کا انتقال 1927ء میں ہوئی تھی۔ اس نے مرنے کے وقت وصیت کی کہ اسے مراقبے کی حالت میں ہی دفنایا جائے اور کئی سالوں کے بعد اس کی لاش قبر کشائی کرکے نکال لی جائے۔ داشی ڈورزو ایٹیگولوو کے ماننے والے بدھ راہبوں نے اس کی خواہشات کا احترام کرکے اسے جب 1955ء میں اس کی قبر سے نکالا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے روحانی پیشوا کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ داشی ڈورزو ایٹیگولوو بالکل اسی حالت میں موجود تھے جس طرح انھیں دفنایا گیا تھا۔ بدھ راہبوں نے اس لاش کو مقسد اوشیش کا درجہ دے کر اسے مندر میں رکھ دیا جہاں اسے عام افراد بھی دیکھ سکتے ہیں۔
 
لیڈی ژن زہوئی:
 
 
لیڈی ژن زہوئی کی لاش کو دنیا میں سب بہتر حالت میں حنوط شدہ لاشوں میں اسے ایک مانا جاتا ہے۔ لیڈی ژن زہوئی جنھیں لیڈی دائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کا انتقال 163 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ لیڈی ژن زہوئی اپنے وقت کے مشہور سیاستدان کی اہلیہ تھیں۔ جب 1972ء میں ان کے مقبرے کا پتا لگایا گیا تو ان کی لاش بالکل صحیح حالت میں موجود تھی جسے حنوط کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس خاتون کا انتقال دل کے عارضے کے باعث ہوا تھا۔
 
روزایلیا لومبارڈو:
 
 
سسلی سے تعلق رکھنے والی روزایلیا لومبارڈو کا انتقال 1920ء میں صرف 2 سال کی عمر میں نمونیا کے باعث ہوا تھا۔ اس ننھی بچی کے انتقال پر اس کا والد بہت بے حال تھا اور اسے کسی صورت چین نہیں آ رہا تھا اس لئے اس نے لاشوں کو محفوظ کرنے والے ایک ماہر سے رابطہ کیا جس نے مختلف ادویات کی مدد سے اس کی لاش کو محفوظ کر دیا۔ روزایلیا کی لاش آج بھی ایسے ہی محفوظ ہے اور اسے دیکھ کر گمان ہی نہیں ہوتا کہ اس بچی کا انتقال تقریبا ایک صدی پہلے ہو چکا ہے۔
 
ولادمیر لینن:
 
 
سوویت یونین سے تعلق رکھنے والے اس مشہور سیاستدان کا انتقال 1924 میں ہوا تھا۔ ولادمیر لینن نے دنیا کی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ نہ صرف روس بلکہ پوری دنیا میں اسے عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس وقت کی سوویت حکومت نے ولادمیر لینن کی لاش کو محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس عظیم لیڈر کو نہ بھولیں۔ آج بھی اس کی لاش کو روس کے دارالحکومت میں ایک شیشے کے باکس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ماہرین لاش کی حفاظت کیلئے اسے سپیشل انجیکشن لگاتے ہیں۔
 
ٹولونڈ مین:
 
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے اس انسان کا انتقال تقریبا چار قبل مسیح میں ہوا تھا۔ ٹولونڈ مین کی لاش 1950ء میں دریافت ہوئی تھی۔
 
اوٹزی:
 
 
 
ماہرین کا کہنا ہے کہ اوٹزی کا انتقال 3105 سے 3359 کے درمیان ہوا تھا۔ لیکن قدرت نے آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے اس کی لاش کو محفوظ کر لیا۔ اوٹزی کی لاش کو اٹلی کے برفانی پہاڑوں سے دریافت کیا گیا تھا۔ اوٹزی کو یورپ کی سب سے پرانی لاش تصور کیا جاتا ہے۔ جب یہ لاش ملی تو اس نے پتھر کے زمانے کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں پتھروں سے بنے ہوئے اوزار تھے۔