اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) 21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہوئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہوگا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی، یہی نہیں خود مسلم لیگ (ن) کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ موجودہ صورتحال میں یہ حکومت نہیں لینی چاہئے، اسے چلانا نا ممکن ہوگا، کئی سیاسی پنڈتوں نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا، مگر صرف دو ماہ میں صورتحال بدلتی دکھائی دے رہی ہے، قیاس آرائیوں کے برعکس حکومت کافی حد تک بوجھ سہارتی دکھائی دیتی ہے، نئی حکومت کے سامنے جو چیلنجز تھے ان میں سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے۔
حکومت بنتے ہی احتجاجی تحریکوں کے اعلانات نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی، کہا گیا کہ عالمی دنیا کی جانب سے موجودہ حکومت کے ساتھ تعاون ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، ایک خیال یہ تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کے باعث مقتدرہ کو انہیں انگیج کرنا ہوگا اور ایسی صورت میں (ن) لیگ کیلئے مشکلات کا آغاز ہو سکتا ہے، سابق وزیر اعظم کے خلاف کیسز میں الیکشن کے بعد کچھ عدالتی فیصلوں کو بھی اسی انگیجمنٹ سے جوڑا گیا، اب ان خدشات اور خطرات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی حکومت کا مستقبل کیسا نظر آ رہا ہے۔
سب سے پہلے معاشی مسئلے کو دیکھیں تو ملک 2022ء سے اب تک منڈلانے والے معاشی بحران سے کسی حد تک نکل آیا ہے، مگر اس بحران سے نکلنے کیلئے ایک قیمت بھی ادا کرنی ہے جو عوام کو اور سیاسی طور پرحکومت کو ادا کرنی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ مشکل فیصلوں کے سوا اب کوئی چارہ نہیں، ٹیکسز میں اضافہ کرنا ہوگا، توانائی بھی مزید مہنگی کرنی پڑے گی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے، بجلی کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو تی جارہی ہے، گیس کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ نئے بجٹ میں عوام پر نئے ٹیکسز لگانے کی تیاری ہو چکی ہے۔
ملک تو معاشی بحرانی کیفیت سے نکل رہا ہے مگر آنے والے تین چار برس عام آدمی کیلئے مشکل ترین دکھائی دے رہے ہیں، مہنگی ترین توانائی ملک میں مہنگائی کا طوفان لاتی دکھائی دے رہی ہے، درحقیقت یہ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ مستقبل قریب کے اس منظر نامے میں عوامی ردعمل حکومت پر دباؤ بڑھائے گا، حکومت کو عوامی دباؤ سے بچنے کیلئے عام آدمی کو ہر صورت ریلیف دینا ہوگا۔
جہاں تک احتجاجی تحریکوں کا معاملہ ہے تو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عید کے بعد احتجاجی تحریک کا اعلان کیا گیا تھا، وہ کل جمعہ کے روز سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں، پہلا احتجاجی جلسہ فیصل آباد میں ہونے جا رہا ہے، حکومت کا خیال ہے کہ اس احتجاجی تحریک کو وہ کوئی بڑا خطرہ نہیں سمجھتے، 9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور اس کا سٹرکچر پارٹی کی سطح پر برُی طرح متاثر ہوا، اس کے بعد ملک میں پارٹی کی سطح پر منظم احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس احتجاجی تحریک کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف بظاہر کوئی ماحول بھی نہیں بنا سکی۔
پاکستان تحریک انصاف کا رجیم چینج سے شروع ہونے والا بیانیہ اب بشریٰ بی بی کو درپیش مبینہ خطرات تک آن پہنچا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے گزشتہ کئی ہفتوں سے صرف ایک ہی بیانیے پر بات ہو رہی ہے اور ان کی جانب سے بشریٰ بی بی کی صحت کو جواز بنا کر سیاست کی جا رہی ہے، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز پر اور پریس کانفرنسز میں بشریٰ بی بی کی صحت کے معاملے پر جارحانہ رویہ اپنائیں، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے بیانیہ کو صرف سابق خاتونِ اول کی صحت کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے بلکہ عوامی ایشوز پر بھی بات کی جائے مگر تحریک انصاف کے کرتا دھرتا یہ تجویز ماننے کو تیار نظر نہیں آتے۔
انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کے بظاہر کامیاب نہ ہونے کی ایک اور وجہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی قیادت کا فقدان ہے، پنجاب میں تحریک انصاف کے معاملات چلانے والی دو شخصیات میاں اسلم اقبال اور حماد اظہر مسلسل منظر عام سے غائب ہیں، ایسے میں وہ ووٹر جو 8 فروری کو خاموشی سے نکلا اور اس نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ، وہ قیادت کی غیر موجودگی میں باہر نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
گزشتہ ہفتوں میں عالمی دنیا کی جانب سے موجودہ حکومت کے ساتھ چلنے کے معاملے پر مثبت پیش رفت نظر آ رہی ہے، امریکا سمیت مغربی ممالک کی جانب سے موجودہ سیٹ اَپ کے ساتھ چلنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ رویہ قدرے بہتر ہے، پاکستان کو سعودی عرب سمیت دوست ممالک کی جانب سے بھی مسلسل تعاون کا گرین سگنل دیا جا رہا ہے۔
سب سے اہم اور پاکستان کی سیاست میں اصل کردار ادا کرنے والے محرکات میں سے مقتدرہ کے ساتھ انگیجمنٹ ہے، حال ہی میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کسی سطح پر انگیجمنٹ شروع ہو چکی ہے، جو محض ایک افواہ ثابت ہوئی، مصدقہ ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کسی سطح پر کوئی بات چیت نہیں ہو رہی اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔
یہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر مقتدرہ کی اہم شخصیات سے متعلق سخت زبان کا استعمال شروع ہوگیا ہے اور وہ اپنی پارٹی کو بھی یہی ہدایات دے رہے ہیں، مگر ایک مرتبہ پھر اس حکمت عملی کا انہیں اور ان کی جماعت کو نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اس صورتحال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی انشورنس سابق وزیراعظم کا رویہ اور ان کی سیاسی حکمت عملی ہے۔