لاہور:(میمونہ الیاس)پاکستان کی سرزمین اپنے اندر قدرتی حسن، متنوع ثقافت، تاریخی ورثہ اور مہمان نواز عوام کا ایسا امتزاج رکھتی ہے جو دنیا کے بہت کم ممالک کو نصیب ہے۔
ہر سال 14 اگست کو جب جشنِ آزادی کی رونقیں ملک بھر میں بکھرتی ہیں تو ان کا ایک کم نظر آنے والا مگر نہایت اہم کردار پنجاب ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن بھی ادا کرتا ہے، یہ کردار زیادہ تر پسِ منظر میں ہوتا ہے، مگر اس کی محنت اور منصوبہ بندی جشنِ آزادی کے ماحول کو چارچاند لگادیتی ہے۔
محکمۂ سیاحت، جشنِ آزادی کے موقع پر، ایسے اقدامات کرتا ہے جو براہِ راست عوام کی نظر میں نہیں آتے، مگر ان کے اثرات دور رس ہوتے ہیں، جیسا کہ تاریخی عمارتوں اور مقامات کو سبز و سفید روشنیوں سے سجانا،عوامی مقامات جیسے ہل سٹیشنز، پارکس اور سیاحتی مقامات پر صفائی اور تزئین و آرائش کا خصوصی انتظام،فوٹوگرافی، ڈاکومنٹریز اور پروموشنل مواد کے ذریعے پاکستان کی خوبصورتی کو میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر اُجاگر کرنا، یہ سب کام عوام کو براہِ راست نظر نہ بھی آئیں، مگر یہ ملک کی مثبت تصویر کشی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جشنِ آزادی کے دنوں میں پنجاب ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن مختلف شہروں کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کی مرمت، صفائی اور تزئین و آرائش پر خصوصی توجہ دیتا ہے، مثال کے طور پر لاہور میں بادشاہی مسجد، شالامار باغ اور لاہور قلعہ کی خصوصی لائٹنگ، مری، سوات اور ناران جیسے مقامات پر فیسٹیولز اور ثقافتی میلوں کا انعقاد،بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں صفائی مہم اور پبلک ایونٹس، یہ اقدامات نہ صرف مقامی لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے بھی ایک مثبت تاثر چھوڑتے ہیں۔
جشنِ آزادی کے موقع پر محکمۂ سیاحت روایتی لباس، مقامی کھانوں اور ہنر مندوں کے ہنر کو اجاگر کرنے والے پروگرام منعقد کرتا ہے، یہ سرگرمیاں ہماری ثقافت کو زندہ رکھنے اور دنیا تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، دستکاری میلوں کا انعقاد،لوک موسیقی اور رقص کے پروگرام،روایتی کھانوں کے سٹالز اور فیسٹیولز،یہ تمام سرگرمیاں پاکستان کے رنگارنگ کلچر کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
محکمۂ سیاحت، جشنِ آزادی کے موقع پر بین الاقوامی میڈیا اور ٹور آپریٹرز کو دعوت دیتا ہے تاکہ وہ پاکستان کے پُرامن، مہمان نواز اور حسین پہلوؤں کو دنیا تک پہنچا سکیں، سوشل میڈیا مہمات، ڈاکومنٹریز اور بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت اس حکمتِ عملی کا حصہ ہوتی ہیں۔
خوشحال اور خوبصورت پاکستان خوابوں کو حقیقت بنانے میں پنجاب ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی ایک بڑی کاوش یہ بھی ہے کہ لاہور میں سائٹ سیئنگ بس سروس شروع کی، جسے سرخ ڈبل ڈیکر بس بھی کہتے ہیں ۔سرخ ڈبل ڈیکر بس نہ صرف مقامی شہریوں کو اپنے شہر کی خوبصورتی سے روشناس کروا رہی ہے بلکہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے بھی ایک منفرد تجربہ فراہم کر رہی ہے۔
محکمۂ سیاحت کے پاس اس وقت کے پاس 11 جدید سرخ ڈبل ڈیکر بسیں موجود ہیں، جن میں لاہور میں سب سے زیادہ 5 بسیں چلائی جا رہی ہیں، دیگر شہروں میں ملتان، فیصل آباد، اسلام آباد،راولپنڈی اور بہاولپور میں بھی سروس دستیاب ہے۔ لاہور میں بس کے بڑے روٹس میں گریٹر اقبال پارک،فوڈ اسٹریٹ، واہگہ بارڈر، دہلی گیٹ، سفاری زو، پونچھ ہاؤس اور گورنر ہاؤس شامل ہیں۔
سال 2025 کے آغاز سے اب تک 14,787 طلباء نے سرخ ڈبل ڈیکر سروس کے ذریعے لاہور کی تاریخی اور ثقافتی پہچان کو قریب سے دیکھا، جبکہ 634 غیر ملکی سیاح بھی اس منفرد سفری تجربے کا حصہ بنے، یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ نہ صرف سیاحت بلکہ پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کرنے میں بھی سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔
محکمہ سیروسیاحت یومِ آزادی کے موقع پر ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کرے گا جس میں پرچم کشائی اور ملک کی سلامتی کے لیے خصوصی دعا، کیک کاٹنے کی تقریب، آزادی واک اور مسلح افواج کو خراجِ تحسین، شجر کاری اور صفائی مہم، ملی اور فوجی نغموں کی دھنیں شا مل ہیں، یہ پروگرام نہ صرف ایک جشن ہو گا بلکہ یہ پیغام بھی دے گا کہ ہم سب مل کر اپنے وطن کو سرسبز، صاف اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔
محکمۂ سیاحت کا یہ کردار زیادہ تر اس وجہ سے ’خاموش‘ کہلاتا ہے کہ یہ پسِ پردہ انجام دیا جاتا ہے، گراس روٹ لیول پر کام کرنے والے اہلکاروں کی محنت،مقامی کمیونٹیز کے ساتھ تعاون،سیاحتی سہولیات میں چھوٹی مگر مؤثر بہتری،یہ سب کام عوامی شور شرابے کے بغیر، مگر انتہائی ذمہ داری سے انجام دیے جاتے ہیں۔
جشنِ آزادی محض ایک دن نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے،پاکستان کی شناخت، اس کی تاریخ اور اس کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ہے، محکمۂ سیاحت کا یہ خاموش کردار اس جشن کو مزید جاذبِ نظر بناتا ہے اور پاکستان کے حسین چہرے کو نہ صرف اپنے عوام کے دلوں میں بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کے ذہنوں میں بھی نقش کرتا ہے۔
محکمۂ سیاحت کی یہ محنت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا حسن اور اس کی ثقافت کو محفوظ رکھنے اور اُجاگر کرنے کے لیے بعض اوقات سب سے مؤثر کردار وہی ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے، مگر محسوس ضرور کیے جاتے ہیں۔