لاہور: (محمد علی) دنیا تیزی سے اس طرف بڑھ رہی ہے جہاں روبوٹس نہ صرف ہماری صنعتوں اور دفاتر بلکہ گھروں میں بھی روزمرہ زندگی کا حصہ ہوں گے، انسان نما روبوٹس (Humanoid Robots) اب محض فلمی کہانیوں کا حصہ نہیں رہے بلکہ حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔
بوسٹن ڈائنامکس کے حیرت انگیز کرتب دکھانے والے روبوٹس ہوں یا Tesla کا Optimus، یہ سب ہمیں مستقبل کی جھلک دکھاتے ہیں، مگر ان کے اندر ایک ایسی بنیادی ڈیزائن کی خامی پائی جاتی ہے جو ان کی کارکردگی اور توانائی کے استعمال کو شدید متاثر کرتی ہے، موجودہ روبوٹس زیادہ تر ایک ہی اصول پر تیار کئے جاتے ہیں جسے Brain-first desigکہا جاتا ہے یعنی تمام فیصلے اور حرکات ایک مرکزی کمپیوٹر یا ’’دماغ‘‘ کے ذریعے کنٹرول ہوتے ہیں۔
یہ ڈیزائن بظاہر مؤثر دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں یہ روبوٹ کے جسمانی ڈھانچے کو لچک اور خودمختاری سے محروم کر دیتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روبوٹ ہر حرکت کیلئے دماغ کی ہدایت کا محتاج ہوتا ہے اور کسی غیر متوقع صورتحال میں فوراً ردعمل دینے میں ناکام رہتا ہے۔
انسانی جسم اور روبوٹ میں فرق
انسانی جسم کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ اپنے آپ میں ایک شاہکار ہے، ہماری ہڈیاں، جوڑ، پٹھے اور لچکدار ٹینڈنز حرکت کو نہ صرف ہموار بناتے ہیں بلکہ توانائی بھی بچاتے ہیں، ہم جب چلتے ہیں تو ہمارے جوڑ اور ٹینڈنز سپرنگ کی طرح توانائی ذخیرہ کر کے دوبارہ استعمال کرتے ہیں، مگرروبوٹس کو انسانی جسم والی سہولتیں میسر نہیں، وہ سخت دھاتی جوڑوں اور موٹرز پر انحصار کرتے ہیں، ان کے جسم میں وہ قدرتی لچک نہیں پائی جاتی جو انسانوں کو کم توانائی میں زیادہ مؤثر حرکت دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ روبوٹس کو چلتے رہنے کیلئے اضافی توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے۔
مثال کے طور پر Tesla Optimus ایک سادہ واک کے دوران تقریباً 500 واٹ فی سیکنڈ توانائی استعمال کرتا ہے جبکہ ایک عام انسان اسی رفتار پر تقریباً 310 واٹ فی سیکنڈ خرچ کرتا ہے، یعنی روبوٹ تقریباً 45 فیصد زیادہ توانائی صرف کرتا ہے، توانائی کے اس غیر مؤثر استعمال کے باعث روبوٹ کی بیٹری چند ہی گھنٹوں میں ختم ہو جاتی ہے، جو عملی زندگی میں ان کے کردار کو محدود کر دیتی ہے۔
جسمانی ذہانت کی کمی
انسان نما روبوٹس بظاہر ذہین دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی جسمانی ذہانت ابھی بہت کمزور ہے، ایک مثال Optimus کی ہے، جو ٹی شرٹ فولڈ کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب کپڑا پہلے سے ترتیب شدہ ہو، اگر کپڑا ذرا بھی بے ترتیب ہو تو روبوٹ ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھوں اور جوڑوں میں وہ فطری لچک اور حساسیت موجود نہیں جو انسان کو غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے قابل بناتی ہے۔
دنیا کی بڑی کمپنیاں اس خامی کو تسلیم کر چکی ہیں، سونی روبوٹکس سمیت کئی ادارے اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ صرف مصنوعی ذہانت (AI) پر انحصار کافی نہیں، روبوٹس کو حقیقی معنوں میں انسانوں جیسا بنانے کیلئے جسمانی ڈھانچے میں لچکدار میکانزم شامل کرنا ضروری ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ روبوٹ کا جسم خود بخود توانائی محفوظ کرے، حرکت میں خودکار ردوبدل کرے اور کم سے کم بیٹری استعمال کے ساتھ زیادہ مؤثر کارکردگی دکھائے۔
مستقبل کیلئے تجاویز
٭روبوٹس کے ڈھانچے اور جوڑوں کو زیادہ لچکدار اور فطری انداز میں ڈیزائن کیا جائے تاکہ وہ قدرتی جسمانی حرکات کے قریب تر ہوں۔
٭انسانی ٹینڈنز کی طرح روبوٹک ڈھانچوں میں ایسی ٹیکنالوجی شامل کی جائے جو حرکت کے دوران توانائی ذخیرہ کر کے دوبارہ استعمال کرے۔
٭روبوٹ کے جسم میں مختلف حصوں کو خودمختاری دی جائے تاکہ وہ فوری ردعمل دے سکیں، بجائے اس کے کہ ہر چھوٹی حرکت کیلئے دماغ کی اجازت کا انتظار کریں۔
٭روبوٹ میں ایسے سینسرز اور فزیکل ڈیزائن شامل ہوں جو اسے حقیقی دنیا کی پیچیدگیوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے قابل بنائیں۔
روبوٹس کو عملی زندگی میں کارآمد بنانے کیلئے جسمانی ذہانت کو بھی اتنی ہی اہمیت دینا ضروری ہے، اگر روبوٹس کے جسمانی ڈھانچے کو زیادہ لچکدار، توانائی بچانے والا اور فطری انداز میں ڈیزائن کر لیا گیا تو یہ نہ صرف زیادہ مؤثر ثابت ہوں گے بلکہ واقعی ہمارے روزمرہ ساتھی بن سکیں گے، مستقبل کے روبوٹس کا راز صرف مصنوعی ذہانت میں نہیں بلکہ مصنوعی جسمانی ذہانت میں پوشیدہ ہے۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔