لاہور: (اظہر عبادت) قدرت نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن میں درخت ایک انمول قدرتی تحفہ ہیں، درخت نہ صرف ہماری زمین کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں بلکہ انسانی زندگی اور ماحول کے بقا کے ضامن بھی ہیں، یہ ہمارے لئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، موسم کو معتدل بناتے ہیں اور حیوانات و پرندوں کے مسکن ہیں، اسی لیے انہیں بجا طور پر ''ماحول کے محافظ‘‘ کہا جاتا ہے۔
جنگلات فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں، زمین کے درجہ حرارت کو معتدل رکھتے ہیں اور بارشوں کے عمل کو متوازن بناتے ہیں، ہر درخت دن میں سیکڑوں لیٹر آکسیجن پیدا کرتا ہے جو انسان اور حیوانات کے سانس لینے کیلئے ضروری ہے، جنگلات جانوروں، پرندوں اور کیڑوں کی ہزاروں اقسام کا مسکن ہیں، جو قدرتی ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں۔
درخت بارش کے پانی کو زمین میں جذب کر کے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو بڑھاتے ہیں اور سیلابی ریلوں کو روکتے ہیں، لکڑی، شہد، پھل، جڑی بوٹیاں اور دیگر وسائل انسانی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں جنگلات کی صورتحال
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات کی شرح نہایت کم ہے، اقوام متحدہ کے مطابق کسی بھی ملک میں رقبے کا کم از کم 25 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں یہ شرح صرف 4 سے 5 فیصد ہے، یہ صورتحال ماحولیاتی توازن کیلئے خطرہ ہے، شمالی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا میں پاکستان کے سب سے بڑے جنگلاتی علاقے ہیں، خصوصاً ہزارہ، سوات اور گلگت بلتستان میں قدرتی جنگلات پائے جاتے ہیں، مگر ٹمبر مافیا کی سرگرمیاں جنگلات کو تیزی سے ختم کئے جارہی ہیں۔
اس طرح سندھ میں کراچی اور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے دنیا کے سب سے بڑے مینگروو جنگلات میں شمار ہوتے تھے، مگر اب ان کی حد بہت کم رہ گئی ہے، پنجاب اور بلوچستان میں بھی جنگلات کی شرح انتہائی کم ہے اور زیادہ تر درخت کٹائی کی نذر ہو چکے ہیں۔
جنگلات کی کٹائی کے نقصانات
درختوں کے کٹنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب ہے، جنگلات کے ختم ہونے سے زمین اپنی گرفت کھو دیتی ہے نتیجتاً بارش کا پانی تیزی سے بہہ کر سیلاب لاتا ہے، حالیہ دنوں خیبر پختونخوا کے بالائی اضلاع میں تیز بارشوں اور سیلابوں کے نقصانات کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ درخت کٹ گئے اور پہاڑی ڈھلوانیں بالکل چٹیل میدانوں میں تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً بارشی پانی بلا روک سیلابی ریلوں کی صورت میں بہہ کر بستیوں کو ملیا میٹ کر گیا۔
زمینی کٹاؤ سے مٹی کی زرخیزی کم ہو رہی ہے جس کا اثر کھیتی باڑی پر بھی پڑتا ہے، جنگلات ختم ہونے سے کئی جانور اور پرندے معدومیت کا شکار ہیں، ہم اکثر سنتے ہیں کہ جنگلی جانور آبادیوں میں آ گئے، اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ جنگلات ختم ہونے سے جنگلی حیات کی آماجگاہیں بھی ختم ہوگئیں۔
ماحول کو بچانے کیلئے شجرکاری مہمات بھی ناگزیر ہیں، ہر فرد کو سال میں کم از کم ایک درخت لگانے کا عہد کرنا چاہیے، درختوں کی غیر قانونی کٹائی روکنا ہوگی، مقامی کمیونٹیز کو آگاہی دینی ہوگی کہ وہ درختوں کی کٹائی کے خلاف کھڑے ہوں، سکولوں اور میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جا سکتا ہے، جنگلات کے قوانین پر سختی سے عمل کرانا ہوگا، جنگلات زمین کی بقا کے ضامن ہیں۔
پاکستان جیسے ملک جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کی کمی کا شکار ہے، کے لیے جنگلات کا تحفظ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اگر ہم نے بروقت جنگلات کی اہمیت کو نہ سمجھا اور ان کی حفاظت نہ کی تو آنے والی نسلیں ایک بنجر، خشک اور غیر محفوظ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی، ہمیں اجتماعی طور پر یہ عہد کرنا ہوگا کہ جنگلات کی حفاظت کریں گے اور نئے درخت لگائیں گے، تاکہ ہمارا ملک ماحولیاتی طور پر محفوظ اور سرسبز بن سکے۔
اظہر عبادت روزنامہ دنیا کے ساتھ وابستہ ہیں، ان کی تحریریں نوجوان نسل کیلئے دلچسپی کی حامل ہوتی ہیں۔