عمران خان بچ گئے، جہانگیر ترین تاحیات نااہل قرار

Published On 15 Dec 2017 09:11 AM 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 14 نومبر کو پی ٹی آئی رہنماؤں کی نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

 اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف پاکستان مسلم لیگ ن کی اپیل خارج کر دی جبکہ جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ عدالت نے غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات بھی مسترد کر دیئے۔

 چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلہ سنانے سے قبل کہا کہ آنے میں تاخیر ہوگئی، اس پر معذرت چاہتا ہوں، ایک صفحے پر غلطی تھی جس کی وجہ سے 250 صفحے دوبارہ پڑھنے پڑے۔

عمران خان نااہل قرار

عدالت نے عمران خان کے خلاف نااہلی کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا عمران خان پر نیازی سروسز ظاہر کرنا لازم نہیں تھا، عمران خان نے بنی گالہ اراضی فیملی کیلئے خریدی لہذا درخواست خارج کی جاتی ہے۔

جہانگیر ترین تاحیات نااہل قرار

سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیتے ہوئے کہا جہانگیر ترین نے اعتراف جرم کیا اور جرمانہ بھی ادا کیا، لہذا انہیں تاحیات نااہل کیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے کارکن آمنے سامنے

 عدالت کا کورٹ نمبر ایک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، پی ٹی آئی رہنما چوہدی سرور، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری، مسلم لیگی رہنما حنیف عباسی، طلال چوہدری، دانیال عزیز بھی عدالت میں موجود تھے۔ سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔

یہ خبر بھی پڑھیں:حنیف عباسی کا کونسا بنیادی حق متاثر ہوا؟ عدالت کا سوال

مٹھائی پہنچ گئی

حنیف عباسی کی درخواست

 عمران خان کے خلاف نا اہلی کیس کی ہنگامہ خیز سماعت ایک سال تک جاری رہی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کے کپتان پر آف شور کمپنی چھپانے، تحریک انصاف کے لئے غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ جمع کرنے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرنے، بنی گالہ اراضی اہلیہ کے نام بے نامی خریدنے، ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے غیرقانونی فائدہ اٹھانے کے الزامات سامنے آئے۔

یہ خبر بھی پڑھیں:نا اہلی کیس میں عمران نے مؤقف تبدیل کیا

عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا

پانامہ پیپرز لیکس پر عمران خان نے شریف فیملی کےاحتساب کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ن لیگ کے رہنما نے کپتان کو بھی اسی عدالت کے کٹہرے میں کھینچ لیا۔ حنیف عباسی نے دو نومبر 2016 کو عمران خان کی آرٹیکل باسٹھ ون ایف پر نا اہلی کیلئے درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ نے 7 نومبر کو پہلی سماعت پرعمران خان سے جواب طلب کیا۔ کپتان نے 23 نومبر کو پیش تحریری جواب میں بنی گالہ اراضی خود خریدنے کا مؤقف اپنایا۔ 23 نومبر 2016 کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے باعث بنچ ٹوٹ گیا اور کیس پانچ ماہ تک زیرالتوا رہا۔

یہ خبر بھی پڑھیں:جمائما سے ایک لاکھ ڈالرز کی منی ٹریل کا کوئی ریکارڈ نہیں

سماعت کا دوبارہ آغاز

نئے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تین مئی 2017 سے مقدمے کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔ 18 مئی کو عمران خان نے دوسرا بیان حلفی جمع کرایا جس میں جمائما سے قرضہ لینے کا بتایا اور اپنے نمائندہ راشد خان کا بیان بھی پیش کیا۔ ن لیگ نے راشد خان کے بیان کو عمران خان کا قطری خط قراردیا۔ عدالت نے لندن فلیٹ خریداری کی منی ٹریل پر سوالات کئے تو عمران خان نے 22 جولائی کو منی ٹریل کے نامکمل ہونے کا اعتراف کر لیا۔ چیف جسٹس نے ممنوعہ فنڈنگ کے معاملہ پر ریمارکس دیئے کہ دوسروں کی دیانت داری پر بات کرنے والے کے احتساب میں کوئی حرج نہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں:جمائما کو رقم منتقلی کی رسیدیں مل گئیں

وکیل عمران خان

عمران خان کے وکیل نے دوران سماعت واشگاف الفاظ میں کہا کہ 2003 میں لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد آف شور کمپنی کی کوئی قانونی حیثت نہیں تھی۔ عدالت نے جمائما خان کو قرض کی واپسی کا ریکارڈ طلب کیا تو انکشاف ہوا کہ لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد بھی کمپنی اکاؤنٹ میں لاکھوں پاؤنڈ اور یورو کی ٹرانزیکشن ہوتی رہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کمپنی کی قانونی حیثت نہیں تھی تو اتنی بڑی رقمیں کیسے آتی جاتی رہیں۔ وکیل حنیف عباسی نے نشاندہی کی کہ عمران خان نے بنی گالہ اراضی کی خریداری پر مؤقف 3 بار بدلا، انہیں پاناما فیصلے میں طے معیار کی رو سے، جھوٹ بولنے اور کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پر نا اہل قرار دیا جائے۔

یہ خبر بھی پڑھیں:عمران خان اور جہانگیر ترین کیس کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے: سپریم کورٹ

اختتامی دلائل

وکیل عمران خان نے اختتامی دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل سے گوشواروں میں غلطی ہو سکتی ہےغلط بیانی نہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کیا پانامہ کیس میں تنخواہ کا نہ بتانا غلطی تھی یا غلط بیانی؟۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 14 نومبر کو آخری سماعت میں کہا عدالت کو سچ کی تلاش ہے، دستیاب مواد سے فیصلہ کریں گے کہ عمران خان یا حنیف عباسی میں سے کس نے سچ بولا۔