پنجاب: آلودہ پانی غریبوں‌ کو اپاہج بنا رہا ہے

Last Updated On 12 May,2018 09:05 am

لاہور: ( روزنامہ دنیا ) بشارت علی کی عمر اس وقت صرف 15 سال تھی جب اس کے پیروں میں کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہوا کہ وہ چلتے چلتے لڑکھڑانے لگا، اس لاہور چیمبر آف کامرس کے مطابق شہر کے اندر اور اطراف میں واقع 90 فیصد فیکٹریاں اپنے صنعتی فضلے ( استعمال شدہ اجزا) کو زہریلے اثرات سے پاک کیے بغیر کھلے گڑھوں یا نہروں میں پھینک دیتی ہیں، تقریباً ایک سال قبل مقامی ذرائع ابلاغ نے یہ خبریں شائع کیں کہ بشارت علی کے گائوں میں پینے کا پانی کس بری طرح آلودگی کا شکار ہو رہا ہے، اس کے نتیجے میں لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اور دیگر متعلقہ ماہرین مسئلے کی چھان بین اور پانی کے جائزے کیلئے کئی مرتبہ یہاں آچکے ہیں، اس کے بعد ہی علاقے میں نئے کنویں کھودے گئے، ان سے اضافی پانی تو حاصل ہوا لیکن یہ پانی بھی آلودہ اور نہایت مضر صحت تھا۔

اس علاقے کا دورہ کرنے والے ماہرین نے انکشاف کیا کہ سال 2000 سے اب تک زہریلے پانی سے تقریباً 200 بچے شدید متاثر ہوئے ہیں، ان بچوں کے دانتوں اور ہڈیوں کی شکل ہی بگڑ گئی ہے، اب یہ متاثرین بچے نہیں رہے بلکہ نوجوان ہوچکے ہیں لیکن وہ عام لوگوں کی طرح زندگی نہیں گزارتے بلکہ اپنے گھروں میں ہی بند رہتے ہیں، ان نوجوانوں کو رشتے بھی نہیں ملتے کیونکہ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ان کی ہڈیاں معمول کے مطابق نہیں بلکہ مڑی تڑی ہوچکی ہیں۔ بشارت علی کی عمر اس وقت 32 سال ہے لیکن وہ بہت کمزور اور بے حوصلہ ہوچکا ہے، اس کے دانت بھی نہایت کمزور اور ان کی رنگت پیلی ہوچکی ہے، وہ مستقل معذوری کا شکار ہوچکا ہے کیونکہ اس کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا رہ گیا اور اسے چلنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے۔

بشارت کا گاؤں کوٹ اسد اللہ اور قریبی گائوں زہریلے پانی سے آلودگی کے باعث دور دور تک مشہور ہوچکے ہیں۔ اے ایف پی کے نمائندے نے اس علاقے کا دورہ کیا تو اس نے دیکھا کہ خواتین، مرد اور بچے ہاتھوں میں بوتلیں اور کین لیے ایک فلاحی ادارے کی جانب سے بنائے گئے ایک سولر پاور فلٹریشن پلانٹ کے باہر پینے کا صاف اور صحت بخش پانی لینے کیلئے قطار بنائے کھڑے تھے ، اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے بھی پانی کی فلٹریشن کا پلانٹ لگایا جا رہا ہے لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے پلانٹ کا پانی علاقے کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہوگا۔ پنجاب حکومت کے متعلقہ افسروں سے اس صورتحال پر تبصرے کا کہا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر خالد جمیل اختر نے صوبائی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے علاقے کا دورہ کرنے کے بعد تصدیق کی کہ علاقے میں پینے کا جو پانی فراہم کیا جا رہا ہے وہ آرسینک سمیت ٹاکسن اور کیمیکل سے آلودہ ہے اور انہی کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کے اعضا میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آرسینک کی وجہ سے قے اور ڈائیریا سمیت پیٹ کے امراض پیدا ہوسکتے ہیں اس کے علاوہ متاثرہ شخص کا جگر، پھیپھڑے اور گردے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد جمیل اختر نے خبردار کیا کہ ان سب عوارض کے نتیجے میں متاثرہ شخص کا نہ صرف نظام ہضم بلکہ پورا gastrointestinal tract بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آلودہ پانی کے نتیجے میں متاثرہ شخص نیوروپیتھی نامی مرض کاشکار بھی ہوسکتا ہے، یہ بیماری اعصاب کو کمزور کر دیتی ہے اس کی وجہ سے متاثرہ شخص کے جسم کے بعض حصوں میں حساسیت ختم ہو جاتی ہے ، بازو اور ٹانگیں بہت کمزور ہو جاتی ہیں اور ان کی شکل بگڑ سکتی ہے یعنی ہاتھ پائوں deformation کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹرخالد جمیل نے بتایا کہ انہوں نے جن مریضوں کا معائنہ کیا ان میں سے اکثر نیوروپیتھی نامی بیماری کا شکار تھے ، یہ بیماری علاقے میں موجود فیکٹریوں کی وجہ سے پانی میں شامل ہونے والے زہریلے اثرات اور ٹاکسن کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ ان مریضوں میں سے کوٍئی ایک یا دو افراد ایسے بھی ہوں جو موروثی طور پر اس بیماری کا شکار ہوئے ہوں لیکن اکثریت کے بیمار ہونے کا سبب زہریلا اورآلودہ پانی ہے۔

ڈاکٹرخالد جمیل نے کہا آرسینک عموماً زیر زمین پانی میں پایا جاتا ہے اس کا سبب زرعی، میونسپل اور صنعتی فضلہ ہوتا ہے جسے زہریلے اثرات سے پاک نہ کیا گیا ہو، ایک سوئس ماہر جوئل پوڈگورسکی نے پورے پاکستان سے زیر زمین پانی کے 1200 نمونے حاصل کر کے ان کا لیبارٹری تجزیہ کیا اس کے بعد انہوں نے خبردار کیا کہ تقریباً 6 کروڑ پاکستانی شہری آرسینک کے زہریلے اثرات سے متاثر ہوسکتے ہیں، اس جائزے میں جو گزشتہ سال شائع ہوا تھا، بتایا گیا تھا کہ دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہروں میں آرسینک شامل ہے جو کنارے پر موجود بستیوں میں رہنے والوں کی صحت کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے، ان علاقوں میں لاہور اور حیدرآباد بھی شامل ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر نے ڈاکٹرخالد جمیل کے اس تجزیے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اتنے وسیع مسئلے پر تحقیق کیلئے پانی کے اتنے کم نمونوں سے کوئی قابل اعتبار نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تاہم کونسل نے تسلیم کیا کہ آرسینک کا مسئلہ موجود ہے۔ کونسل کی سینئر عہدیدار لبنی بخاری نے کہا ہمارا ادارہ 1999 سے اس معاملے پر تحقیق کر رہا ہے ، اس کیلئے ہم نے لاہور اور زیریں سندھ سے 60 ہزار سے زیادہ پانی کے نمونے حاصل کیے، حقیقت یہ ہے کہ مختلف مقامات پر پانی میں آرسینک پایا گیا ہے۔

دریں اثنا ء کونسل نے مزید کہا کہ 2012 سے پانی کی ٹیسٹنگ باقاعدگی سے کی جارہی ہے ، اس کے مطابق ملک بھر میں 69 فیصد سے 85 فیصد تک پانی آلودہ اور انسانی صحت کیلئے سخت مضر ہے ۔ لبنیٰ بخاری نے انکشاف کیا کہ بوتلوں میں بند پانی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ صحت بخش ہے کیونکہ ہم نے بوتلوں میں بند پانی کے بعض نمونوں میں بھی آرسینک کے زہریلے اثرات دیکھے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان میں پانی کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ،ایک اندازے کے مطابق سال 2040 میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوگا جو پانی کی بدترین قلت کا شکار ہوں گے ، رپورٹ کے مطابق پانی کے حوالے سے پاکستان میں دو بڑے مسائل ہیں، ایک تو یہ کہ پانی کی بچت پر کسی کی توجہ نہیں ہے ، دوسری اہم بات یہ ہے کہ پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کو جو اہمیت دینی چاہئے وہ نظر نہیں آرہی ہے ، یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان میں ماحولیات کا محکمہ صوبائی حکومتوں کو دے دیا گیا ہے ۔ لاہور کے قریب واقع کالا لانوالہ نامی گائوں میں آلودہ پانی کی وجہ سے شہریوں کے ہاتھ پائوں ٹیڑھے میڑھے ہوجانے کا مسئلہ 20 سال پہلے سامنے آیا تھا، اس کے باوجود صورتحال میں بہتری کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا،25 سالہ محنت کش نوید نے بتایا کہ وہ صرف 3 سال کا تھا جب اس کے پائوں ٹیڑھے ہوگئے تھے ،اس نے کہا کہ اب مجھے اپنے پائوں کے سیدھے ہونے کی کوئی امید بھی نہیں کیونکہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور یہاں غریب کی کوئی نہیں سنتا۔

 

Advertisement