14 خواجہ سرا انتخابات لڑیں گے، کاغذات لے لئے

Last Updated On 09 June,2018 11:37 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئندہ عام انتخابات میں خواجہ سرا بھی پارلیمنٹ تک پہنچنے کی دوڑ میں حصہ لینے کے لئے میدان میں آرہے ہیں۔ 14خواجہ سرا ئوں نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے ہیں۔ان میں سے 3 خواجہ سرائوں نے قومی اسمبلی کے حلقوں اور 11 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئے کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے ہیں۔

انتخابات میں خواجہ سراؤں کے حصہ لینے اور ان کی جانب سے انتخابی حکمت عملی طے کرنے کے لئے اکتوبر 2017 میں آل پاکستان ٹرانس جینڈر الیکشن نیٹ ورک (APTEN) نامی تنظیم بنائی گئی تھی۔ انتخابات میں حصہ لینے والے چند خواجہ سراؤں کے ناموں کا اعلان آل پاکستان ٹرانس جینڈر الیکشن نیٹ ورک کی جانب سے بھی کردیا گیا ہے۔ ان امیدواروں میں فرزانہ ریاض NA-33 سے ، آرزو خان PK-33 سے، کومل PK-38 سے، میڈم بھٹو PP-189 سے اور نایاب NA-142 سے حصہ لیں گی۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (گلا لئی) نے چار ٹکٹ خواجہ سرائوں کو جاری کیے ہیں جن میں سے ندیم کشش NA-52 سے، نایاب علی NA-142 سے، لبنیٰ لال PP-26 سے اور میڈیم رانی PK-40 سے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے الیکشن لڑیں گی۔ پاکستان میں خواجہ سرائوں نے انتخابی عمل کا حصہ بننے کے لئے کوششیں شروع کیں اور اس سلسلے کی پہلی کامیابی 2009 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے سے ملی جس میں عدالت نے حکم دیا کے خواجہ سرائوں کو ایک الگ زمرے میں شمار کیا جائے ۔ اس سلسلے کی دوسری کامیابی ستمبر 2015 میں ملی جس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے فیصلہ سنایا، جس کی رو سے خواجہ سرائوں کو تمام پاکستانیوں کے برابر حقوق دئیے گئے ۔ اس فیصلے کی روشنی میں خواجہ سرا وارثت اور نوکری کیلئے با قی پاکستانیوں کے برابر کے حقدار ٹھہرے ۔ اسی فیصلے میں خواجہ سرائوں کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا گیا۔

دنیا الیکشن سیل کے رابطہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے پبلک ریلیشن آفیسر الطاف احمد نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی پر خواجہ سرائوں کیلئے کوئی علیحدہ خانہ نہیں بنایا گیا ہے۔ خواجہ سرا فارم حاصل کر سکتے ہیں اور مسمی / مسماۃ میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے کاغذات نامزدگی جمع کروا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن2013 میں پہلی بار انفرادی طور پر ایک خواجہ سرا بندیا رانا نے PS-114 سے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑا تھا اور وہ27 ووٹ حاصل کر سکی تھیں ۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو 1990میں امریکہ اور جرمنی میں پہلی مرتبہ تیسری جنس کے حامل افراد سیاست میں مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ فرانس میں 2001 اور انگلینڈ میں2002 میں تیسری جنس کے حامل افراد کو سیاسی پذیرائی ملی۔ تعداد کے حوالے سے امریکہ سرفہرست ہے جہاں بیس ایسے افراد جن کا تعلق تیسری جنس سے ہے وہ سیاسی اور حکومتی مشینری میں اہم عہدے حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرے نمبر پر تین ممالک آتے ہیں جن میں کینیڈا، انگلینڈ اور ہندوستان شامل ہیں۔پڑوسی ملک میں 1998 میں پہلی مرتبہ ایک خواجہ سرا مدھیہ پردیش کی قانون ساز اسمبلی کی رکن بنی۔ اس کے بعد 2000 میں دو اور 2015 میں ایک خواجہ سرا سرکاری مشینری کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے۔