لاہور: (دنیا الیکشن سیل) سوشل میڈیا کے منفی استعمال میں اضافہ، اخلاق سوز الزامات اور جعلی تصاویر کی بھرمار، بانی فیس بک مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ جعلی اکاﺅنٹس پاکستان کے انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں عام انتخابات قریب آتے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف منفی پروپیگنڈہ میں اضافہ ہوگیا، جس میں اخلاقی حدود پامال کی جارہی ہیں۔ مخالف امیدوار کے نجی معاملات، خواتین پر کیچڑ اچھالنے اور بہتان لگانے کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے حوالے سے انتہائی بیہودہ مواد بھی شیئر کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں انتخابات قریب آتے ہی سوشل میڈیا کا منفی و مثبت استعمال بڑھ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کو آزادی اظہار کا ذریعہ قرار دینے والے مغربی ممالک نے بھی اس کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے متعدد سائبر ونگ قائم کیے ہوئے ہیں جبکہ اکثر ممالک میں انتخابات کے دوران ہی سوشل میڈیا بند کردیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا نسبتاً دنیا بھر میں مواصلات کی ایک نئی شکل ہے۔ سوشل میڈیا کا بنیادی مقصد تفریح اور مواصلات کی آسان فراہمی تھا مگر اب یہ زندگی کے ہر پہلو میں اپنا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ جہاں سوشل میڈیا سیاسی عمل کو فروغ دینے کے نئے طریقے فراہم کرتا ہے، وہاں انتخابی مہم میں بھی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کررہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانے والی ذاتی مواصلات سیاسی جماعتوں کو اپنے ممکنہ ووٹرز کے قریب لے آتی ہے۔ سابق صدارتی امیدواروں کے بارے میں معلومات ہوں یا بحث کی لائیو کوریج، انتخابی مہمات ہوں یا نتائج کا اخراج، امید واروں کی کردارسازی ہو یا مخالفین کی کردار شکنی، سیاسی واقعات سے آگاہی کے لیے سوشل میڈیا کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت سوشل میڈیا نے ساری دنیا کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ اس کے اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے چھوٹے یا بڑے ادارے کی تفریق کے بغیر ہر ادارہ، کمپنی یا انسٹیٹیوٹ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اپنا پیج، گروپ یا اکاؤنٹ ضرور بناتے ہیں۔
سوشل میڈیا عوام کو بغیر کسی فلٹر کے معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی رائے کے لیے بھی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، مگر سیاست میں اس کے مثبت سمیت منفی اثرات بھی ہیں۔ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کو اپنی پارٹی کی مقبولیت بڑھانے اور اپنے مخالفین کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر انتشار برپا ہو جاتا ہے جو بیرونی سطح پر ملک کے سیاسی حالات کا منفی امیج پیش کرتا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں جاری انتخابی سرگرمیوں کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور ٹوئٹر امیدواروں اور ان کے حامیوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ مثبت استعمال کی حد تک تو بات درست رہتی ہے مگر ان فورمز پر ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے خودنمائی کیلئے میڈیا سیلز قائم کیے ہوئے ہیں، جو ان کی مثبت سرگرمیوں کو سوشل میڈیا صارفین میں پرموٹ کرتے ہیں۔ یہی میڈیا سیلز اور امیدواروں کے حامی جعلی اکاﺅنٹس بھی بناتے ہیں جن کے ذریعے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے، ان کے اہل خانہ پر بہتان طرازی، دھمکیوں اور ایڈاب فوٹوشاپ کے ذریعے مخالفین ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کی ایڈٹ کی گئی تصاویر شیئر کرتے ہیں، جن کو وائرل ہونے سے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
سوشل میڈیا کے اس منفی استعمال کی روک تھام کیلئے اگرچہ متعدد بار حکومتی سطح سے کوششیں کی گئی اور وہ صرف اس وجہ سے ناکام رہیں کہ یہ کوششیں ہر حکومت صرف اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈہ کو روکنے کے لیے کرتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے خود اپنے اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والی بڑی کمپین کے بعد ایف آئی اے کے ذریعے اس کمپین کا حصہ بننے والوں کے خلاف کارروائی شروع کروائی تھی۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر ہونے والے منفی پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے 2015، 2016 اور 2017 میں سائبر کرائم بل متعارف کرائے گئے مگر ہر دفعہ اس کی غیر جانبداری ارباب اختیار کی جانب سے مخالفین کے خلاف کارروائی کر کے مشکوک بنا دی گئی۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مجموعی تعداد 44 ملین سے زائد ہوگئی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا نے گزشتہ سالوں میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا کے استعمال میں سب سے زیادہ فعال نظر آتی ہے۔
اس کے علاوہ تمام چھوٹی و بڑی جماعتیں، مذہبی و سیاسی شخصیات انفرادی و اجتماعی طور پر سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ایک اہم جُز فیس بک کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اعدادوشمار کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے لیے بہترین ٹیم ہائر کی۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا ٹیم کے لیے 44 ملین ڈالر جبکہ ہیلری کلنٹن نے 28 ملین ڈالر خرچ کیے۔
سوشل میڈیا پر اصل مسئلہ جعلی اکاﺅنٹس کی بھرمار ہے جس کی روک تھام کے لیے کوئی عملی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ فیس بک کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ملین سے زائد مشتبہ اکاﺅنٹس ہیں جبکہ اس حوالے سے 11 اپریل 2018 کو فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جعلی اکاﺅنٹس پاکستان کے انتخابات کو متاثر کرسکتے ہیں۔
منفی پروپیگنڈہ و منفی سرگرمیوں کا مرکز بھی یہی جعلی اکاﺅنٹس بنتے ہیں۔ ایسے ہی جعلی اکاﺅنٹس ٹویٹر پر بھی موجود ہیں جو اپنے مخالفین کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔
سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے نا صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔ اس کی روک تھام کی صرف ایک صورت ہے اور وہ اس کی بندش ہے۔ عالمی سطح پر سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ کو روکنے میں ناکامی کے بعد کئی ممالک انتخابات یا کسی اہم موقع پر سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ روکنے میں ناکامی کے بعد اس پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو الیکشن کی مشکلات سے بچنے کے لیے دورانِ الیکشن سوشل میڈیا کو مکمل طو ر پر بین کر دیتے ہیں ان ممالک میں ترکی سر فہرست ہے۔ ترکی ایک نیٹو کا رکن، یورپی یونین کے لیے ایک پرامید درخواست دہندہ اور ایک فعال جمہوریت ہے۔ دوسرے ممالک کے برعکس سوشل میڈیا پر پابندی مسلسل نہیں ہے بلکہ مختلف اوقات و تقریبات پر سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ 2014 کے الیکشن سے ایک یا دو ہفتے قبل ترکی میں سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
دوسرے ممالک میں ایران شامل ہے جہاں 2009 میں صدارتی انتخابات کے بعد فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب پر پابندی لگائی گئی۔ اسی طرح چین نے بھی 2009 میں سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ روکنے کے لیے چینلز کو بین کر دیا تھا۔ چین نے سرور پراکسیوں کو بھی بلاک کیا ہے جو فائر والز کے ذریعے سوشل میڈیا کے استعمال میں مدد کرتی ہیں۔ ویتنام نے 2009 سے غیراعلانیہ طور پر فیس بک کو بلاک کردیا ہے، اگرچہ یہ پابندی وقتا فوقتا عائد کی جاتی ہے اور غیر اعلانیہ طور پر اٹھالی جاتی ہے۔
ان تمام ممالک میں سوشل میڈیا کی بندش کو آزادی اظہار کے خلاف قدم قرار دیا گیا۔ اب آنے والے انتخابات میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والے منفی و اخلاق سوز پروپیگنڈہ کی روک تھام کے لیے آزادی اظہار پر کسی قدغن سے بچتے ہوئے اقدامات کرنا ضروری ہوگیا ہے جس پر اب سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی آواز اٹھنا شروع ہوگئی ہے۔