لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) سابق وزیراعظم نواز شریف جیپ کے انتخابی نشان کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمارے لوگوں پر دباؤ ڈال کر جیپ کا نشان لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جیپ انتخابی نشان نے اتنی اہمیت کیونکر اختیار کرلی۔ جیپ کا نشان مخصوص امیدواروں نے کسی خاص پلان کے تحت لیا۔ اس کا چناؤ محض اتفاق تھا اور اس جیپ کے نشان پر انتخاب لڑنے والے صرف مسلم لیگی ہیں اور کیا مسلم لیگ ن کیلئے ہی پریشانی کا باعث ہوں گے یا حکومت سازی کے عمل میں جیپ پر جیتنے والے کس کس کیلئے دباؤ کا باعث بنیں گے آخر ہر انتخابات کے موقع پر کبھی چاند کا چمکنا، کبھی مٹکا کا مٹکانا اور کبھی جیپ خراٹے بھرتی کیوں نظر آتی ہے؟۔
عام انتخابات کے حوالے سے عین انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے دن انتخابی نشان ‘‘جیپ’’ اہمیت اختیار کر گیا۔ یہ واضح رہے کہ مسلم لیگ کے ایک بڑے ناراض رہنما چوہدری نثار علی خان اپنے حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ انکا انتخابی نشان بھی ‘‘ جیپ’’ ہے ۔ اب راولپنڈی سے لیکر پنجاب کے آخری ضلع راجنپور تک اچانک مسلم لیگ کے کئی ٹکٹ ہولڈرز نے انتخابی نشان شیر سے بیوفائی کر کے جیپ پر سواری کو ترجیح دی۔ ہو نہ ہو اس سے مسلم لیگ کے اندر ایک خاص گروپنگ کا کُھرا ناراض رہنما تک پہنچ رہا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے ؟ یا اس کے پیچھے کوئی غیبی قوت کار فرما تو نہیں ؟ یہ سوال انتہائی پیچیدہ ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ کی شکست وریخت پر نظر رکھنے والے اور خواہشمند سیاسی حضرات نواز شریف کی نا اہلی کے وقت سے لیکر اب تک آئے روز نواز لیگ کے تتر بتر ہونے کی نوید قوم کو سناتے رہتے تھے۔ مگر حقیقتِ حال یہی ہے کہ مسلم لیگ تمام تر بحران اور مخالفانہ ہواؤں کے باوجود ابھی تک کسی بڑی شکست و ریخت کا شکار نہیں ہو سکی۔
مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی رائے میں اس وقت جیپ کے نشان پر آزاد اور مسلم لیگی ٹکٹ ہولڈرز کو بٹھانا اس کوشش (مسلم لیگ توڑنے ) کا انتہائی اقدام ہے۔ جیپ کا انتخابی نشان اس وقت نواز شریف اور مریم نواز کیلئے خاصا بڑا سیاسی دھچکہ ہے۔ اب پنجاب میں شہباز شریف کے خلاف معرکہ آراء تحریک انصاف کو غیبی امداد کے ذریعے جیپ کا بول بالا ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے پریشر گروپ ایک ہی انتخابی نشان پر انتخابی میدان میں اتارے جاتے رہے ہیں کبھی چاند کا نشان، بلدیاتی الیکشن میں ‘‘مٹکا’’ انتخابی نشان اور اب کسی منزل مقصود پر پہنچنے کیلئے جیپ کا انتخابی نشان، ظاہر ہے ملک میں طاقت کے مختلف مراکز اپنی اپنی صلاحیتوں اور استعداد کے مطابق سرگرمِ عمل ہیں۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود نواز لیگ کے ارکان اور امیدواران انتخابی میدان میں بظاہر ہار مانتے نظر تو نہیں آ رہے۔ اب شہباز شریف پر لازم ہے کہ وہ اپنی جماعت کی انتخابی مہم کو طوفانی انداز میں شروع کریں اور پنجاب کے چار بڑے ڈویژنز میں پہلے سے موجود طاقت کو اپنے حق میں استوار کریں کیونکہ ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔ کبھی حق میں کبھی مخالف سمت میں۔ لہٰذا اقتدار ہاتھ آئے یا نہ آئے مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف اپنی جماعت کے قومی کردار کو سمیٹنے مت دیں۔
جہاں تک نواز شریف کی وطن واپسی اور انتخابی مہم میں ان کے کردار کا تعلق ہے تو فی الوقت یہ ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ ان کی اہلیہ لندن میں زندگی موت کی کشمکش سے دو چار ہیں اور ان کی ترجیح فی الوقت تو وہی ہیں۔ البتہ ان کی ملکی انتخابات پر پوری نظر ہے اور ان کی ہدایات پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ مریم نواز کے حوالے سے خبریں آ رہی ہیں کہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لیں گی۔ لیکن پھر بھی نواز شریف کی ضرورت انتخابی مہم میں رہے گی کیونکہ باوجود اس امر کے کہ حکومتی کارکردگی میں بڑا کردار شہباز شریف کا رہا پھر بھی نواز شریف کو ہی پارٹی کا لیڈر سمجھا جاتا ہے اور ان کا سیاسی کردار ہی انتخابی نتائج پر فیصلہ کن اثرات رکھتا ہے۔ لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ وہ واپس آتے ہیں یا نہیں ؟۔