کراچی: (روزنامہ دنیا) کراچی کے ضلع شرقی کے قومی اسمبلی کے 4 حلقوں میں انتہائی دلچسپ مقابلوں اور غیر متوقع نتائج کا امکان ہے۔ ضلع شرقی عام انتخابات 2018 ء کے حوالے سے اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان، ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، معروف تاجر رہنماء اور متحدہ مجلس عمل کے زاہد سعید، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اسداللہ بھٹو، سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل احمد، مسلم لیگ(ن) کے خواجہ طارق نذیر، سندھ اسمبلی کی سابق ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا اور ٹی وی اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین امیدوار ہیں۔ عمران خان وزارت عظمیٰ کے متوقع امیدوار بھی ہیں۔ یہاں سے عمران خان اور ڈاکٹر فاروق ستار کے لیے کامیابی آسان نہیں ہے اور ان کی جیت یا ہار کے کراچی کی سیاست پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
کراچی کا ضلع شرقی شہر کے پوش اور دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ ضلع شرقی میں گلشن اقبال، گلستان جوہر، بہادر آباد، سہراب گوٹھ، احسن آباد، سولجر بازار، پی آئی بی کالونی، پی ای سی ایچ ایس، محمود آباد، اعظم بستی، منظور کالونی، ڈیفنس فیز ون اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ ضلع شرقی کی آبادی 28 لاکھ 53 ہزار 616 افراد پر مشتمل ہے، جب کہ کل ووٹرز کی تعداد 14 لاکھ 11 ہزار 289 ہے، جو کل آبادی کے مقابلے میں 49 اعشاریہ 45 فیصد ہے۔ ضلع شرقی کے حلقہ پی ایس 99 میں آبادی کے مقابلے میں ووٹرز کی تعداد صرف ساڑھے 15 فیصد ہے، جب کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 242 میں کراچی میں سب سے کم ووٹ درج ہیں، جو 1 لاکھ 83 ہزار 373 ہیں۔ اس حلقے میں 94 پولنگ اسٹیشن اور 390 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ ضلع شرقی میں مجموعی طور پر 12 حلقے ہیں، جن میں 4 قومی اسمبلی اور 8 سندھ اسمبلی کے حلقے ہیں۔ قومی اسمبلی کی 4 نشستوں کے لیے 73 اور سندھ اسمبلی کی 8 نشستوں کے لیے 183 امیدوار میدان میں ہیں۔ 2013 ء میں ضلع شرقی کی تمام نشستیں ایم کیو ایم نے حاصل کی تھیں، تاہم تحریک انصاف کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد حلقوں کے علاقوں میں کافی ردو بدل ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کا موجودہ حلقہ این اے 242 شرقی 1 بنیادی طور پر قومی اسمبلی کے سابقہ حلقہ این اے 253 کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ حلقہ گڈاپ ٹاؤن، گودھرا سوسائٹی، ایوب گوٹھ، گجرو اسکیم 33، لاسی گوٹھ،گل ہومز قیوم آباد، انڈس کمپلیکس سپر ہائی وے، گبول گوٹھ کالونی، جنت گل ٹاؤن ،حسن نعمانی کالونی، نیو سبزی منڈی، دوست محمد جونجھار گوٹھ، عباس ٹاؤن، ابو الحسن اصفہانی روڈ، میمن نگر، گلزار ہجری، گلشن کنیز فاطمہ، جیوانی ہائٹس، پرنس علی خان اپارٹمنٹس، مخدوم بلاول گوٹھ، سچل گوٹھ، ہارون بنگلوز، گلشن نور، اسپارکو، ایوب گوٹھ کچی آبادی ، احسن آباد اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔
این اے 242 کی کل آبادی 7 لاکھ 34 ہزار 410 ہے، جب کہ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 83 ہزار 373 ہے، جن میں ایک لاکھ 10 ہزار 111 مرد، 73 ہزار 264 خواتین ووٹرز ہیں۔ آبادی کے مقابلے میں ووٹرز کی تعداد تقریباً 25 فیصد ہے۔ پولنگ کے لیے کل 94 پولنگ اسٹیشن اور 390 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ این اے 242 میں مجموعی طور پر 19 امیدوار ہیں، جن میں ایم ایم اے کے اسد اللہ بھٹو، پی ایس پی کے حسن صابر، پی ٹی آئی کے سیف الرحمن، ایم کیو ایم کی کشور زہرا، پیپلز پارٹی کے اقبال ساند، مسلم لیگ (ن ) کے حاجی شرافت خان، ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک کے مزمل اقبال ہاشمی اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم اس حلقے میں اصل مقابلہ اسد اللہ بھٹو، کشور زہرا، سیف الرحمن اور اقبال ساند کے مابین متوقع ہے۔ مبصرین کے مطابق اس حلقے میں اسد اللہ بھٹو کی پوزیشن بہتر تو ہے کیوں کہ وہ 2002 ء سے 2007 ء تک رکن قومی اسمبلی رہے، تاہم پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے بھی مقابلے کا امکان ہے۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے بعد احتجاج میں اہم کردار ادا کرنے پر تحریک انصاف کے سیف الرحمن اہمیت اختیار کر گئے ہیں، وہ بعض اہم قوتوں کی گڈ بک میں بھی شامل ہیں، تاہم مجموعی طور پر ایک بڑا حصہ گوٹھوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو بھی مضبوط قرار دیا جا رہا ہے۔
این اے 243 گلشن اقبال بلاک 13، کے ڈی اے اسکیم نمبر 4، گلشن اقبال بلاک 15، 16، 14، 8، 9، 10 شانتی نگر، ضیاء الحق کالونی بلاک نمبر 1، بلاک 2، بلاک 3، بلاک 7، بلاک 4، 4 اے، میٹروول، اسکاؤٹ کالونی، بخش علی گوٹھ، گلستان جوہر کے مختلف بلاکس،عبد اللہ ٹیرس،جمعہ گوٹھ گلشن اقبال، بہادر آباد، شرف آباد اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ این اے 243 سابقہ این اے 253 اور این اے 252 کے علاقوں پر مشتمل ہے، جب کہ کچھ علاقے اس میں این اے 245 کے بھی شامل ہیں۔ این اے 252 اور این اے 253 گزشتہ 30 برس کے دوران ہمیشہ ایم کیوایم کا گڑھ رہے، تاہم 2002 ء میں این اے 252 سے ایم ایم اے کے محمد حسین محنتی اور این اے 253 سے ایم ایم اے کے اسد اللہ بھٹو کامیاب ہوئے تھے۔ یہ حلقہ گلشن اقبال کے پوش علاقوں پر مشتمل ہے اور اس میں بہادر آباد و دیگر اہم علاقے بھی شامل ہیں۔ اس حلقے کی کل آبادی 6 لاکھ 95 ہزار 588 ہے، جب کہ ووٹرز کی کل تعداد 4 لاکھ 1 ہزار 883 ہے اور آبادی کے مقابلے میں ووٹرز کی تعداد تقریباً 57 فیصد ہے۔ ووٹرز میں 2 لاکھ 11 ہزار 168 مرد، جب کہ 1 لاکھ 90 ہزار 665 خواتین ووٹرز ہیں، جن کے لیے مجموعی طور پر 216 پولنگ اسٹیشن اور 864 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ حلقے میں مجموعی طور پر 14 امیدوار ہیں، جن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، ایم کیو ایم کے سید علی رضا عابدی، پیپلز پارٹی کی سیدہ شہلارضا، متحدہ مجلس عمل کے اسامہ رضی، اللہ اکبر تحریک کے مزمل اقبال ہاشمی، پاک سر زمین پارٹی کے مزمل قریشی، مسلم لیگ (ن ) کے حاجی شاہ جہاں، تحریک لبیک پاکستان کے سید نواز الہدیٰ، مہاجر قومی موومنٹ کے سید کامران علی رضوی اور دیگر شامل ہیں، تاہم اصل مقابلہ عمران خان، علی رضا عابدی، شہلارضا، اُسامہ رضی اور مزمل قریشی کے مابین متوقع ہے۔ حلقے میں بظاہر بڑی شخصیت ہونے کے ناطے عمران خان کی پوزیشن کافی مستحکم دکھائی دے رہی ہے ، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم نے منظم اندازمیں مہم چلائی اور اپنے ووٹرز کو نکالنے میں کامیاب رہی تو عمران خان کے لیے مشکلا ت پیدا ہوسکتی ہیں۔ تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے لیے اس حلقے کا انتخاب کرنے کا بنیادی مقصد حلقے میں پوش علاقوں کا شامل ہونا، جہاں پڑھا لکھا ایک بڑا طبقہ موجود ہے اور میمن برادری کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے، کیوں کہ سابقہ این اے 252 سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے عبد الرشید گوڈیل تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں، اس طرح عمران خان کو میمن برادری کا ووٹ بھی ملنے کا امکان ہے ۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نشست جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی اور اگر تحریک انصاف خوش فہمی میں رہی تو بڑا اپ سیٹ ہو سکتا ہے۔
ضلع شرقی کا حلقہ این اے 244 ریلوے سوسائٹی، گلشن اقبال بلاک 10 اے ،بی ، سی ، ڈی ، ای ، ایف، گلستان جوہر بلاک 20، راڈو ہل پوسٹ، کے ڈی اے اوورسیز، گلستان جوہر بلاک 17، بلاک 15، بلاک 12، بلاک 13، بلاک 18، بلاک 19، شنگریلا ٹاور، رابعہ سٹی،پی این ایس بہادر کار ساز، ایس حنیف کارساز شارع فیصل، سی او ڈی پی اے ایف، پی اے ایف فیصل، کے ڈی اے آفیسر سو سائٹی، عسکری کینٹ، پی ای سی ایچ ایس کمرشل ایریا، دارالعمان سوسائٹی، دہلی مرکنٹائل سو سائٹی، مینا پارک، مونا گارڈن، دارالامان سوسائٹی، نیو سندھی مسلم سوسائٹی، عمر کالونی، کراچی ایڈمن ہاؤسنگ سو سائٹی بلاک 4 ، بلاک 5، بلاک 6، بلاک 7، بلاک 8، بلاک 9، لیاقت اشرف کالونی، محمود آباد، منظور کالونی، کشمیر کالونی، نشتر روڈ، ڈیفنس فیز 1، اختر کالونی، رحمان کالونی، جونیجو ٹاؤن، اعظم ٹاؤن، اعظم بستی، چنیسر گوٹھ، الحمرا سوسائٹی، طاہری جماعت خانہ، عوامی مرکز، کوکن سوسائٹی، عرفات آرکیڈ، کاٹھیا وار سو سائٹی، آدم جی نگر ٹیپو سلطان روڈ اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں ایک بڑا حصہ سابقہ حلقہ این اے 251 کا ہے اور کچھ حصہ این اے 252 کا بھی شامل ہے۔ حلقے میں کل آبادی 7 لاکھ 26 ہزار253 ہے ، جب کہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 7 ہزار 363 ہے ، جن میں 2 لاکھ 21 ہزار 285 مرد اور 1 لاکھ 86 ہزار 78 خواتین شامل ہیں۔ اس حلقے میں آبادی کے مقابلے میں ووٹرز کی تعداد 55 فیصد سے زائد ہے۔ حلقے میں 212 پولنگ اسٹیشن اور 840 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ اس حلقے میں مجموعی طور پر امیدواروں کی تعداد 22 ہے ، جن میں متحدہ مجلس عمل کے زاہد سعید، تحریک انصاف کے سید علی حیدر زیدی، مہاجر قومی موومنٹ کے سید اختر حسین شاہ بخاری، عوامی نیشنل پارٹی کی شازیہ رزاق خان، پاک سر زمین پارٹی کے محمد شفیق، متحدہ قومی موومنٹ کے محمد عبد الرؤف صدیقی، مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسماعیل احمد اور پیپلز پارٹی کے میاں وقار اختر پگا نوالہ اور دیگر شامل ہیں، تاہم اصل مقابلہ زاہد سعید، علی حیدر زیدی، محمد شفیق ، عبد الرؤف صدیقی، مفتاح اسماعیل احمد اور میاں وقار اختر پگا نوالہ کے مابین متوقع ہے۔ حلقے میں زاہد سعید کی پوزیشن کو مستحکم قرار دیا جا رہا ہے ، تاہم ان کے لیے ضروری ہو گا کہ (ن) لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی سے انتخابی مفاہمت کریں، بصورت دیگر مقابلے کی پوزیشن انتہائی مشکل ہوسکتی ہے۔ حلقے میں عبد الرؤف صدیقی بھی اہم امیدوار ہیں، تاہم ان کے لیے بھی سخت محنت اور سابقہ ووٹرز کو قائل کرنا ضروری ہے۔
این اے 245 پاکستان کوارٹر ،اسلامیہ پلاٹینم ہاؤ سنگ سو سائٹی، لاکھانی اپارٹمنٹ، ٹھارو لین، جوبلی اپارٹمنٹ، جامعہ مسجد معصوم شاہ بخاری، یوسف کلاتھ ہاؤس، آدم کالونی گارڈن ویسٹ، لسبیلہ مارکیٹ، سٹی گارڈن، تین ہٹی، نشتر روڈ، بزنس ریکارڈر روڈ، پٹیل پاڑا، جہانگیر روڈ، سندھی پاڑا، بلوچ مسجد، فیضان مدینہ، بنوری ٹاؤن، درگاہ حضرت ابراہیم شاہ، امام بارگاہ شاہ خراساں، کیتھولک کالونی، کلیٹن کوارٹر، جمشید روڈ، سبیل والی مسجد، گنج شکر کالونی، مارٹن کوارٹر، بہار کالونی، حیدر آباد کالونی، عثمانیہ کالونی، جیل روڈ، فاطمہ جناح کالونی، کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس، پی آئی اے اسپورٹس کمپلیکس، کشمیر روڈ، سولجر بازار، اقبال کالونی جی ایریا، نفیس آباد، پیر الٰہی بخش کالونی، غوثیہ کالونی، مینا بازار پیر کالونی، نشتر بستی، گوہر آباد، عیسیٰ نگری، کرنال کالونی، مزار قائد خداد کالونی، پی ای سی ایچ ایس بلاک 2، بلاک 3، بلاک6، خالد بن ولید روڈ، طارق روڈ کمرشل ایریا، محمود آباد گیٹ نمبر 1، 2، 3، گلشن ظہور سیکٹر 8، سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی، اے بی سینیا لائن،لائنز ایریا، جیک لائن، جیٹ لائن، مبارک شہید روڈا ور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ حلقہ بنیادی طور پر سابقہ این اے 252 کے بیشتر اور این اے 251 کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ حلقے میں کل آبادی 6 لاکھ 97 ہزار 345 ہے ، جب کہ کل ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 43 ہزار 540 ہے ، جن میں 2 لاکھ 39 ہزار893 مرد اور 2 لاکھ 3 ہزار 647 خواتین ووٹرز ہیں۔ حلقے میں آبادی کے مقابلے میں ووٹرز کی تعداد 62 فیصد سے زائد ہے۔ حلقے میں 231 پولنگ اسٹیشن اور 916 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ حلقے میں مجموعی طور پر 15 امیدوار میدان میں ہیں، جن میں ایم کیو ایم کے سابق سر براہ ڈاکٹر فاروق ستار ،متحدہ مجلس عمل کے سیف الدین ایڈووکیٹ، پاک سر زمین پارٹی کے ڈاکٹر صغیر احمد، مسلم لیگ (ن ) کے خواجہ طارق نذیر، تحریک انصاف کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ،عوامی نیشنل پارٹی کی ثمینہ ہما میر، پیپلز پارٹی کے فرخ نیاز تنولی، مہاجر قومی موومنٹ کے محمد شفیق احمد اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم اس حلقے میں فاروق ستار، سیف الدین ایڈووکیٹ، ڈاکٹر صغیر احمد، خواجہ طارق نذیر، عامر لیاقت حسین اورفرخ نیاز تنولی کے مابین مقابلہ متوقع ہے۔ حلقے میں ڈاکٹر فاروق ستار مضبوط امیدوار ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم اپنے ووٹرز کونکالنے میں کامیاب رہی تو ڈاکٹر فاروق ستار آسانی سے یہ نشست نکال سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو توقع تھی کہ عامر لیاقت حسین مضبوط امیدوار ثابت ہوں گے ،تاہم ان کی انتخابی مہم کے دوران پیش آنے والی مشکلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عامر لیاقت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ مسلم لیگ (ن) اور متحدہ مجلس عمل کا دعویٰ ہے کہ ان کے امیدوار خواجہ طارق نذیر اور سیف الدین ایڈووکیٹ کی پوزیشن مستحکم ہے، تاہم مجموعی طور پر ڈاکٹر فاروق ستار کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔