کراچی: (روزنامہ دنیا) کراچی میں انتخابی سرگرمیاں زیادہ تر ٹھنڈ پروگرام فارمولے پر چل رہی ہیں اور سیاسی گرما گرمی روایتی نعرے بازی تک کا سفر بھی طے نہیں کر سکی ہے۔ بیشتر ووٹرز کنفیوژن کا شکار لگ رہے ہیں۔ وہ کھل کر کسی کی حمایت یا مخالفت کرتے ہوئے انجانے خوف کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرز عمل سے انتخابی ماحول سرد دکھائی دے رہا ہے۔
انتخابی ماحول اور ووٹرز کی سوچ پر سوشل میڈیا مہم کے واضح اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ ابلاغ عامہ سے متعلق امور کے ماہر ڈاکٹر اُسامہ شفیق نے کہا ہے کہ 51 فیصد ووٹرز نوجوان ہیں۔ ان کا ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ اس بار ‘‘سوشل میڈیا کارتوس’’ کام دکھا جائے گا۔ بیشتر علاقوں میں بعض جماعتوں نے اب تک اپنے الیکشن آفس تک نہیں کھولے، جب کہ الیکشن آفس ہی ووٹرز سے بہتر رابطوں کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
ماضی میں ایم کیو ایم مخالف جماعتیں دباؤ کو جواز بنا کر الیکشن آفس نہیں کھولتی تھیں، تاہم اب یہ جواز بھی کار آمد دکھائی نہیں دے رہا۔ انتخابی گہما گہمی صرف ووٹرز کے دم سے نہیں ہوتی تھی بلکہ بچے اور لڑکے بھی نعرے بازی کرتے نظر آتے تھے۔ عام انتخابات کے انعقاد میں 2 ہفتے رہ گئے ہیں لیکن ڈیکوریشن کی دکان والے ‘‘سیاسی گاہکوں’’ کے انتظار میں ہیں۔ ڈیکوریشن سروس والوں کا کہنا ہے کہ الیکشن کے پیش نظر کرسیاں، دریاں اور ساؤنڈ سسٹم اپ گریڈ کیا گیا تھا مگر اب تک بڑے آرڈر نہیں آ رہے۔
ملیر کے ماضی کے ایک بڑے الیکشن آفس پر سناٹا پایا جاتا ہے۔ ایک سیاسی کارکن سے جب اس کا جواز پوچھا گیا تو اُس کا کہنا تھا کہ اب تک پالیسی نہیں ملی۔ ہم گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ایک سیاسی رہنما نے کہا کہ صرف کراچی نہیں بلکہ پورے ملک میں کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ کچھ جماعتیں فری ہینڈ کام کر رہی ہیں اور کچھ جماعتوں کو واچ کیا جا رہا ہے، اس لیے انتخابی ماحول نہیں بن پا رہا۔
سوشل میڈیا کے ایک سرگرم کارکن کا کہنا ہے کہ اس بار ووٹرز کی رائے پر سوشل میڈیا مہم کے اثرات نمایاں رہیں گے ۔ کئی سیاست دانوں کا کچا چٹھا بیان ہو چکا ہے۔ ان کے بارے میں بہت سے حقائق اس طور سامنے آ چکے ہیں کہ عوام کا معاملات سے بے خبر رہنا ممکن نہیں رہا۔ بہت سے ‘‘الیکٹیبلز’’ بھی سوشل میڈیا مہم سے خائف لگتے ہیں۔