لاہور: ( تجزیہ: سلمان غنی ) ملک میں پیدا شدہ حالات خصوصاً انتخابی عمل میں احتساب کی روش پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان روابط کاسلسلہ بحال ہوا ہے۔ جس میں حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا طرز عمل اور طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے جس سے بے چینی، بے یقینی بڑھے گی اور ملکی معیشت عدم استحکام کا شکار ہو گی لہٰذا ایسی صورتحال میں باہم رابطوں کی بحالی کے ذریعے جمہوریت کو در پیش خطرات کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان تازہ رابطے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ کے درمیان ہوئے ہیں جن میں انتخابی عمل کے دوران احتساب کو جمہوریت اور جمہوری عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک طرف مخصوص عناصر انتخابی انجینئرنگ کے تحت امیدواروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں تو دوسری جانب بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ کو ٹارگٹ کر کے سیاستدانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے جو کسی طور بھی جمہوری سسٹم کیلئے اچھی نہیں لہٰذا باہمی رابطوں کی بحالی کے ساتھ نئی صورتحال پر پارٹی لیڈر شپ کی سطح پر بھی ڈیڈ لاک ختم کیا جانا چاہئے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ایاز صادق سے مذکورہ رابطوں بارے پوچھا گیا تو انہوں نے اسکی تائید کی اور کہا کہ خورشید شاہ نے بھی موجودہ حالات پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا لگتا ہے کہ ملک میں احتساب کے نام پر کسی نئے کھیل کی تیاری ہے جس کیلئے سیاسی جماعتوں کو سوچ و بچار کرنا چاہئے۔ ایاز صادق سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ان رابطوں میں پی پی کی لیڈر شپ کی تائید حاصل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ سپیکر کی حیثیت سے ان کے پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے رابطے رہے ہیں اور ان رابطوں میں انہیں لیڈر شپ کا اعتماد حاصل تھا مذکورہ رابطہ بھی اس ضمن کی کڑی ہے کیونکہ سیاسی قوتوں کے درمیان ملکی حالات اور بدلتی صورتحال پر رابطوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اور میں اپنی لیڈر شپ کو بھی پیپلز پارٹی سے ڈیڈ لاک ختم کرنے کیلئے کہوں گا اور خورشید شاہ سے بات چیت پر اعتماد میں لوں گا۔
علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے ذرائع یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے حوالے سے ہمارے تحفظات ڈھکے چھپے نہیں البتہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے ذمہ داروں کو ٹارگٹ کر کے کچھ قوتیں کسی خاص ایجنڈا پر گامزن ہیں صورتحال کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی قوتوں کے درمیان ڈیڈ لاک نہ رہے ۔ایاز صادق اور خورشید شاہ کے درمیان بات چیت دونوں جماعتوں کے درمیان رابطہ قرار دیا جا سکتا ہے۔