لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) قومی انتخابات کے بروقت نتائج کی فراہمی کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے کئے جانے والے بندوبست آر ٹی ایس نے الیکشن کمیشن کی کریڈبلٹی کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نادرا کی جانب سے آنے والے تحفظات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے تحقیقات کیلئے کمیٹی کا قیام اور اب ایف آئی اے سمیت بعض اداروں تک تحقیقات کا سلسلہ وسیع کرنے کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ معاملہ بڑا حساس ہے اور اداروں کے درمیان اس حوالے سے پیدا شدہ نفسیاتی کیفیت 25 جولائی کو ہونے والے سب سے بڑے غیر معمولی سیاسی عمل کو متاثر نہ کر دے۔
اس امر میں شک نہیں کہ انتخابات کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ حیثیت کو سیاسی جماعتوں، مختلف طبقات، سول سوسائٹی اور میڈیا نے سراہا لیکن رات گئے آر ٹی ایس کے تحت انتخابی نتائج کی فراہمی کے عمل میں آنے والی رکاوٹ اور تاخیر نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے۔
کراچی سے خیبر تک ایک سراسیمگی کی حالت پیدا ہوئی جس پر سیاسی قیادت ،انتخابی امیدوار بھی شدید خدشات کا اظہار کرتے نظر آئے اور بعد ازاں الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والی وضاحتوں کے باوجود خدشات کا ازالہ نہ ہو سکا اور اب تک نئی حکمران جماعت کے امیدواروں اور پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین انتخابی نتائج کو چیلنج کرتے نظر آ رہے ہیں۔
دوبارہ گنتی کے عمل کے نتیجہ میں بعض امیدواروں کی جیت اور بعض کی ہار کا عمل بھی بہت سارے سوالات کھڑے کر رہا ہے لہٰذا اس ساری کیفیت اور حالات کی ذمہ داری کا تعین حکومتی اور سیاسی سطح پر ضروری ہے تا کہ انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومتوں کی ساکھ متاثر نہ ہو اور سیاسی اور اقتصادی استحکام قائم ہو سکے۔ حکومتی سطح پر خود الیکشن کمیشن کی جانب سے ماہرین کی کمیٹی کے قیام کیلئے پیش رفت کو اہم قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سیاسی محاذ پر تحفظات کے ازالہ کیلئے ضروری ہے کہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان جو گورننس کے ساتھ ساتھ آزادانہ انتخابات، مضبوط الیکشن کمیشن پر زور دیتے رہے ہیں انہیں چاہئے کہ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات اور انتخابی نتائج پر پارلیمانی کمیشن یا کمیٹی تشکیل دیں تا کہ شکایات کا ازالہ ہو سکے۔
اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج کے فوری بعد واضح کیا تھا کہ میں یا میری حکومت انتخابی نتائج کے حوالے سے کوئی حلقہ کھولنے میں رکاوٹ نہیں بنے گی ان کے اس بیان نے ان کے اور ان کی جماعت کے حوالے سے تحفظات کو بہت حد تک دور کر دیا لہٰذا اب گیند ان کی کورٹ میں ہے کہ وہ انتخابی نتائج کی ساکھ کے حوالے سے سیاسی محاذ پر پیش رفت کریں اور پارلیمنٹ کی سطح پر ایسا اعلان یا پیغام دیں جس سے ثابت ہو کہ کسی ادارے کی نا اہلی کے عمل سے انتخابات کے قومی عمل اور اس کے نتائج کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک انتخابی نتائج کے حوالے سے اپوزیشن کے طرز عمل کا سوال ہے تو اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کوئی بڑی دھاندلی نہیں ہوئی لیکن انتخابات میں اپنی ناکامی اور آنے والے حالات پر نظر رکھتے ہوئے وہ پیش بندی کے طور پر باہم مل بیٹھی ہے اور الیکشن کمیشن کے خلاف نیا محاذ لگانے جا رہی ہے لہٰذا اس سارے عمل کو کسی ضد اور ہٹ دھرمی سے دو چار کرنے کے بجائے ضروری ہے کہ اس کا سیاسی انداز میں جواب دیا جائے اور جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے انہیں دور کرایا جائے جس کیلئے الیکشن کمیشن نے قدم بڑھا دیا ہے لیکن خود عمران خان کو بھی اس پر اپنے سیاسی مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے کوئی اقدام کرنا چاہئے جس کیلئے پارلیمانی کمیشن یا کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔