100 دنوں‌ کا معاشی ایجنڈا اور حقیقت

Last Updated On 28 November,2018 01:17 pm

لاہور:‌(روزنامہ دنیا) تحریک انصاف نے 100 روزہ ایجنڈے کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس معاشی ڈھانچے کی پختگی اور تعمیر کا پورا خاکہ اور تصور موجود ہے۔ جو کہ کسی ایک طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کی اقتصادیات کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اب تک قومی اسمبلی کے 4 اجلاس ہوئے اور 1 سینٹ کے ساتھ مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس طرح کل 5 اجلاس ہوئے۔

حکومت کا بنیادی کام قانون سازی جو صرف ایک اجلاس میں ہوئی۔ دوسرے اجلاس میں فنانس ایکٹ میں ترامیم کی گئیں اورانکم ٹیکس لگائے گئے۔ سالانہ 4 لاکھ سے 8 لاکھ تک آمدن والوں پر بھی 1 ہزار ٹیکس لگا دیا گیا جبکہ 8 لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدن پر 2 ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔ اس طرح عوامی حکومت کا آغاز عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے سے کیا گیا۔ اس سے پہلے کم آمدنی رکھنے والے افراد پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔

تحریک انصاف نے اپنے 100 روزہ ایجنڈے کے لئے جو اہداف طے کئے، ان پر کتنا عمل ہوا مندرجہ ذیل ہے۔

1- نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی

100 روزہ ایجنڈے کے مطابق پانچ برس کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے لئے ملکی سطح کی حکمت عملی سامنے لائے جانے کا اعلان کیا گیا۔ حکومت نے 4 لاکھ نوجوانوں کو ہنر مند تربیت دینے کا اعلان کیا۔ 1 کروڑ نوکریوں کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی۔ ٹاسک فورس میں شامل افراد کے بارے میں تفصیلات نہ منظر عام پر آئیں اورنہ ہی اس کی پیشرفت کے بارے میں مختلف محکموں کے افسران کو کوئی علم ہے۔ اس ٹاسک فورس کے رپورٹ جمع کرانے کے بعد ہی تعین ہو گا کہ کس طرح نوکریاں فراہم کی جائیں گی مگر دور دور تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

پہلا اعلان وزیر ریلوے شیخ رشید نے 23 ہزارآسامیاں پر کرنے کے لیے کیا مگراس میں سے 2031 آسامیاں پر کرنے کی وزیراعظم نے منظوری دی۔ اس سلسلے میں آسامیوں کا اشتہار 17 نومبر 2018 کو دیا گیا۔ جس کے تحت بھرتیاں کی جائیں گی۔ مگراعلان کے برعکس 100 دنوں میں یہ نوکریاں بھی نہ دی جا سکیں گی۔

2- پیداواری شعبے کی بحالی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی تیزی سے ترقی کی راہ ہموار کرنا

تحریک انصاف کے پہلے 100 روزہ پلان کے مطابق پاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جانا تھے۔ اس ضمن میں کوئی ٹاسک فورس بنائی گئی نہ ہی اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے کسی قسم کی مشاورت کا عمل جاری ہوا۔ ایجنڈے میں برآمدات کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا گیا مگر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی ٹاسک فورس نہ بنائی گئی اور تاحال چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروباری افراد خام مال کی مہنگائی سے پریشان ہیں۔ ان کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ عوام کی قوت خرید میں کمی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد فکرمند ہیں۔

ان کی رائے میں اسی طرح کچھ عرصہ میں انہیں اپنے کاروبار بند کرنے پڑیں گے اور اس سے ان کے ہنرمند مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔ برآمدات پر چھوٹ دینے کا بھی ایجنڈے میں کہا گیا مگرکاروباری افراد کاروبار جاری رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیںؕ برآمدات تو ان کے مطابق دیوانے کا خواب ہے۔ مزدوروں کی حفاظت کے لیے وفاقی سطح پر لیبر پالیسی متعارف کی جانی تھی مگر تا حال کوئی مسودہ نہیں پیش کیا گیا۔ چھوٹے کاروبار کے لیے نوجوانوں کوآسان شرائط پر قرضے کی سہولت دینے کااعلان کیا گیا تاہم قرضے دینے کا طریقہ کاراور دیگر امور پر واضع پالیسی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ ابہام پیدا ہو گیا ہے کہ کن صنعتوں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس سلسلے میں نہ کوئی اشتہار جاری کیا گیا ہے نہ ہی معلوماتی سیمینار منعقد کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام شہری کی اس سہولت تک رسائی اپنے آپ میں ایک جدوجہد ہے۔

3- پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے پالیسی

100 روزہ ایجنڈے کے مطابق نجی شعبے کے تعاون سے پانچ برسوں میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کی جانے کا منصوبہ دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنا گھر پروگرام کے نام سے پراجیکٹ لگانے کااعلان کیا تھا۔ 17 رکنی ٹاسک فورس بنائی گئی۔ پروگرام شروع ہوتے ہی پہلا کام پراجیکٹ کا نام بدلنے کا کیا گیا۔ نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی بنائی گئی۔ جس میں عوام سے فارم جمع کرانے کا کہا گیا۔ شروع میں چند شہروں تک یہ پروگرام محیط تھا بعد میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے اسے پھیلایا گیا۔ بہاولپور کے ضلع میں انکشاف ہوا کہ فارم جمع کرانے کا نظام ہی نہیں۔ فیصل آباد میں 7 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔

ذرائع کے مطابق فیصل آباد شہر میں حکومت کے پاس جگہ ہی نہیں جہاں گھر بنائے جا سکیں۔ صوبائی وزیر نے پنجاب ہاوسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم کیلئے دستیاب اراضی کی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی جس سے حکومتی دعووں کا پول کھل گیا ۔وفاقی سطح پر وزیراعظم کی نگرانی میں سب کمیٹیاں کراچی اور اسلام آباد کے لیے قائم کر دی گئی ہیں۔

سب کمیٹیاں متعلقہ صوبے میں منصوبے کی مالیت، طریقہ کار، گھر کی فراہمی، گھروں کی قسطوں اور بینکوں کے معاملات کی نگرانی کریں گی۔ 100 دن پورے ہونے سے دو دن پہلے 5 ارب روپے بھی جاری کر دینے سے کوئی گھر بننے سے تو رہا۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی عوام کو 100 دن ایجنڈے کے نام پر تاحال خالی اعلانات ہی دیے۔

4- سیاحت کا فروغ

تحریک انصاف کے 100 دن کے ایجنڈے کے مطابق ملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کیلئے فریم ورک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ نجی شعبے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کا حکومت نے اعلان کیا تھا۔ حکومتی گیسٹ ہاوسز کو ہوٹلز میں تبدیل کر کے عام عوام کے لیے کھولے جانے کا اعلان ببانگ دہل کیا گیا۔ مگر کس ڈیپارٹمنٹ کے گیسٹ ہاوسز یا اس عمل میں کن عمارتوں کا انتخاب کیا گیا کوئی فہرست منظر عام پر نہیں آئی۔

متعلقہ حکام اس قدم کے سوالات پر لاعلم تھے کہ کون سا مرد مومن ٹاسک فورس لے کر اس جہاد پر نکلا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم از کم 4 نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ مگر اس ضمن میں بھی کسی سرکاری افسر نے اس دعوے کے والی وارث کا دروازہ نہیں دکھایا جس سے 100 دنوں میں اس پر کیے جانے والی پیشرفت پر بات کی جا سکتی۔

پنجاب ہائوس مری کو ہوٹل جبکہ گورنر ہاوس پشاوراور لاہور کو میوزیم میں تبدیل کیے جانے کی منظوری وزیراعظم نے دے دی۔ چند دن بعد انکشاف ہوا کہ گورنر ہائوس میں موجود دفاتر کے لیے کوئی نئی جگہ ڈھونڈنی پڑے گی۔ چمبہ ہائوس کو گورنر ہاوس میں تبدیل کرنے کی تجویز سامنے آئی۔ اب گورنر ہائوس کے اتنے بڑے سٹاف کے لیے تین کمروں کا چمبہ ہائوس چھوٹا پڑتا محسوس ہوا تو اس ارادے کو بھی ترک کر دیا گیا۔ گورنر ہائوس پنجاب کے ہی پلان میں ردو بدل کر کے مخصوص اوقات میں چند حصے عوام کے لیے کھول دیے گئے۔ ان حصوں کو بعد میں مزید محدود کر دیا۔

اس طرح گورنر ہاوس کی تبدیلی کا ایجنڈا قصہ ماضی ہو گیا۔ اسی طرح اگر صوبائی سطح کا جائزہ لیں تو سندھ گورنر ہاوس کی بھی کہانی ایسی ہے۔ بلوچستان حکومت نے اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہ کی۔

وزیرسیاحت خیبرپختونخوا نے حکومتی 100روزہ ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے 10 نئے سیاحتی مقامات دریافت کر کے آباد کرنے کا اعلان کر دیا۔ پہلے چار کی تلاش میں ہی ہم مارے مارے پھر رہے تھے۔ سہولت یہ ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ سیاحتی پولیس فورس بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جس دن وہ نظر آ گئے ان سے ہی ان مقامات کا پوچھ لیں گے۔ 100 دن تو پورے ہونے کو ہیں مگر یہ سہولیات کس طرح عوام تک پہنچیں گی یہ کسی عوامی نمائندے کو تاحال نہیں پتا۔ تحریک انصاف کو پتہ ہوتا کہ یہ کتنے دنوں میں ممکن ہے توغالباً ان کو 100 دن کے اہداف میں شامل نہ کرتے۔

5- ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات

100 روزہ ایجنڈے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کا میرٹ پر تقرر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تقرر تو ہو گیا مگر تاحال نوٹس جاری ہونے کے علاوہ کوئی ٹیکس اصلاح متعارف نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کیلئے اصلاحاتی پروگرام متعارف کروانے کا اعلان کیا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ماہر کو میرٹ پر تعینات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اگر اصلاحات تحریک انصاف نے لانی تھیں۔

معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کیلے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مگر حالیہ لگائے گئے ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹیاں عوام و کاروبار دوست ہوں یا نہ ہوں مگر قرضوں پر انحصار نہ کم کر سکیں۔ پاکستان کو نہ صرف دوست ممالک سے مدد مانگنی پڑی بلکہ اس کے باوجود آئی ایم ایف کو مدد کے لیے درخواست جمع کرانا پڑی۔ جن سے معاملات طے پانے کے مراحل پر ہیں۔ فنانس بل لا کر ٹیکسز لگائے گئے اس کے ساتھ ساتھ درآمدات میں کمی لانے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی۔ اس سے تجارتی خسارے میں کمی آئے نہ آئے مگر امید ضرور ہے۔

ٹیکس کے متعلق عدالتوں میں کیسز کو جلد حل انجام تک پہنچایا جانے کا عزم کیا گیا مگر اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ایف بی آر سے ٹیکس پالیسی کا اختیار لے لیا گیا ہے۔ اس وقت ایف بی آر صرف ٹیکس اکھٹا کررہا ہے۔ پالیسی کی تشکیل کے لیے بورڈ بنا دیا گیا ہے۔ 100 دن پورے ہونے کو ہیں مگرکوئی تبدیلی نظر میں نہیں آرہی۔

6- پاکستان کو کاروبار دوست ملک میں بدلنا

پانچ برس میں پاکستان کو کاروبار کی عالمی درجہ بندی میں 147 سے 100 نمبر پر لانا فہرست میں شامل ہے مگرتحریک انصاف نے 100روزہ پلان میں بھی اسے ڈال دیا۔ پاکستان میں کاروبار کرنے کو آسان بنانا، سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا، غیر ملکی پاکستانیوں کو پاکستانی معیشت کے دھارے میں لانا، برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں"کونسل آف بزنس لیڈرز" قائم کرنا مندرجہ بالا اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنا مقصود تھا۔

22 رکنی بزنس کونسل بن گئی ہے مگر کوئی پالیسی اس کی طرف سے وزیراعظم کو نہیں جمع کرائی گئی۔ اس پر فیڈرل چیمبر آف کامرس نے اعتراض بھی کیا ہے کہ اسے اس کونسل میں نمائندگی نہیں دی گئی۔ اگر تاجر برادری کی نمائندہ تنظیم اس عمل میں شامل نہیں تو بڑے پیمانے پر اس سے وابستہ لوگوں کے مسائل کون حل کرے گا۔

ملک کو کاروبار دوست بنانے کے برعکس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے فیکٹریوں اور کاروبار کرنے کے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انٹر نیشنل انجینئرنگ ٹریڈ فیئرمنعقد کرایا گیا۔ پاک چین بزنس ایکسپو کا اہتمام کیا گیا مگر پاکستانی اشیا نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ٹی ڈیپ کے ذرائع کے مطابق پاکستانی صنعتیں اب پہلے سے ابتر حالات میں ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کر نے کی دعوت دی گئی اور اعلانات کیے جاتے تھے کہ اربوں کی ریل پیل ہو جائے گی مگر بیرون ملک ترسیلات کے اعداد و شمار میں کوئی واضع فرق نہیں آیا۔ اب تک کوئی بڑی سرمایہ کاری عمل میں نہیں آئی۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر سٹاک ایکس چینج کے اعدادو شمار پر نظردوڑائی جائے تو بیرون ملک سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔

7- ریاستی اداروں کی تنظیم نو

تحریک انصاف نے "پاکستان ویلتھ فنڈ" کے قیام کے ذریعے ریاست کے زیر ملکیت اداروں میں انقلاب کی بنیاد رکھنے کااعلان کیا تھا۔ عوامی ملکیت کی صنعتیں وزارتوں سے الگ کر کے آزاد بورڈ آف گورنرز اور بہترین صلاحیتوں کے حامل منتظمین کے حوالے کی جانی تھیں مگر تاحال ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کی ابتدا ہنگامی طور پر ائیر لائن، ریلویز، توانائی پیدا کرنے والے ادارے اور تقسیم کار کمپنیاں سے کرنے کا عزم کیا گیا مگراکتفا دفتری اوقات کو صبح 8 سے شام 4 بجے کی بجائے صبح 9 بجے سے 5 بجے تبدیلی پر کیا گیا۔

اس کے ساتھ وزیراعظم پاکستان نے تمام اعلیٰ شخصیات کے فرسٹ کلاس میں فضائی سفر پر پابندی کے ساتھ ساتھ خصوصی طیارے پر بھی قدغن لگائی مگر چند ہی دنوں میں اپنے احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے خصوصی طیارے پر سعودیہ روانہ ہو گئے۔ وزارت خزانہ نے تمام افسرں کے سفری اخراجات بھی محدود کیے۔ ملاوٹ کرنے والے عناصر کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ وزیراعظم کے عزم کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں 19 ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی گئی جو کہ اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔ 100 روز مکمل ہونے کو ہیں مگر رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا مکمل رپورٹ تو نہیں پیش ہو سکتی مگر جزوی دے دی جائے گی۔ یادرہے ڈاکٹر عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی 11 رکنی "قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات " کی بھی سربراہی کے فرائض ادا کر چکے ہیں جس کے آخر میں صرف ایک رپورٹ شائع کی گئی اورعملی طور پر اصلاحات لانے کے ضمن میں کچھ نہ کیا گیا۔

8- توانائی کے بحران کا خاتمہ

تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد سستی بجلی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا مگر تین ماہ میں متعدد بار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کے اسباب پر توجہ دیے جانے اور ریگولیٹری ریفارمز لا کر کرایہ پر چلنے والے ماڈل سے نجات کا دعویٰ کیا گیا۔ بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی گئی۔ اس کے بعد ملک کے تمام حصوں میں بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید دو گیس کمپنیاں بنانے کی منظوری دے دی۔ اس کے باعث انتظامی طور پرموجودہ کمپنیوں پر بوجھ کم ہو جائے گا اور صارفین کو بہتر سروس ملے گی۔

پنجاب کے دو ایل این جی پاور پلانٹس کی نجکاری کا فیصلہ لیا گیا۔ سعودی عرب سے ادھار تیل حاصل کیا گیا۔ گوادر میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر آئل سٹی بنانے پر اتفاق ہوا۔ اس بارے میں جب حکام سے پوچھا گیا تو تا حال کوئی پیش رفت نہ ہونے کا بتایا گیا۔ آئندہ 25 سالوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے انرجی پالیسی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ بلوچستان میں 20 ہزار گھروں کے لیے ایک میٹر ریڈر ہے کا جاننے کے بعد وزیراعظم نے انتظامی طور پر بہتریاں لانے کے لیے یہ تجاویز مانگ لیں۔

پنجاب کابینہ نے توانائی منصوبوں کے بارے میں جملہ امور کا جائزہ لینے اور قائداعظم سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کے پراجیکٹ سے متعلقہ امور طے کرنے کیلئے عبدالعلیم خان کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنا دی۔

9- پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو حقیقتاً انقلابی منصوبہ بنانا

تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد پاک چین راہداری منصوبے کو انفراسٹرکچر پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ اقتصادی راہداری بنانے کا وعدہ کیا۔ چین کے ساتھ مل کر زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کو یقینی بنایا جانا بھی 100 روزہ پلان کا حصہ تھا تاہم تاحال حکومت نے نیا ورکنگ گروپ بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ 2 فوکل پرسن مقرر کیے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی سی پیک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چیئرمین خسرو بختیار کو مقرر کیا گیا ہے۔

10- شہریوں اور صنعت کاروں کی مالی وسائل تک رسائی میں اضافہ

حکومت کے پہلے 100 دنوں میں عام شہریوں اور صنعتوں کی سرمائے تک رسائی کو آسان بنایا جانا تھا۔ قومی مالیاتی شراکت داری کی حکمت عملی کے نافذ کرنے میں اور ڈیجیٹل نظام سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا تھا۔ بچت کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے پاکستان کے بینکوں میں رکھے گئے سرمائے کو جی ڈی پی کے 50 فیصد تک لایا جانا تھا۔ بڑے منصوبوں کے لیے درکار سرمائے کی فراہمی کے لیے ایک نیا انفراسٹرکچر بینک بنانے کا عزم کیا گیا تھا۔


 

Advertisement