پنجاب میں بجٹ پیش ہونے سے پہلے کوئی تبدیلی ممکن نہیں

Last Updated On 22 April,2019 09:20 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) پنجاب کا سیاسی محاذ آج کل زبردست افواہوں اور چہ مگوئیوں کی زد میں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وفاق میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد یہ عمل پنجاب میں بھی آئے گا جس بنا پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار سمیت وزرا کے ہاتھ پائوں پھولے نظر آ رہے ہیں اور اس صورتحال میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے آئندہ ہفتے اپنی نشست کا حلف اٹھانے کی خبروں نے ایک نئی کیفیت طاری کر دی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیونکر پنجاب کا سیاسی محاذ افواہوں کی زد میں آیا کیا پنجاب میں وزارت اعلیٰ اور وزرا کی تبدیلی عمل میں آ رہی ہے۔ چودھری نثار علی خان کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے اور کیا صوبہ کے حالات و معاملات وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے کنٹرول میں ہیں۔ وفاق میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اورکزئی کے مقام پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کو اپنی ٹیم پر نظر رکھنے کی ہدایات اور یہ اعلان کہ جو ملک کیلئے فائدہ مند نہیں ہوگا اس وزیر کو بدلوں گا ، تحریک انصاف اور حکومت میں اک نئی کیفیت طاری کر دی اور ایسی خبروں نے زور پکڑ لیا کہ پنجاب کے محاذ پر تبدیلیاں متوقع ہیں۔

حکومتوں کے اتار چڑھاؤ پر کڑی نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وفاق میں تبدیلیوں کے سامنے آنے والے اثرات کے بعد شاید پنجاب میں بجٹ سے قبل کوئی تبدیلی ممکن نہ ہوگی لیکن بجٹ اجلاس اہم ہوگا۔ حکومت کو اپنی صفوں کے حوالے سے الرٹ رہنا ہوگا کیونکہ حکومت کی تبدیلی کے عمل میں اپوزیشن کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا البتہ تحریک انصاف کے اندر کچھ وزرائے اعلیٰ کے امیدوار غیر محسوس انداز میں لنگر لنگوٹ کستے نظر آ رہے ہیں۔ جہاں تک سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے حوالے سے افواہوں اور چہ مگوئیوں کا تعلق ہے تو اس کے ڈانڈے ان کے حلقے سے ملتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ غلام سرور خان کی وزرات کی تبدیلی کے عمل نے ان افواہوں کو جنم دیا اور سمجھا یہ جا رہا تھا کہ غلام سرور خان کی مضبوط پوزیشن کی وجہ سے ان کی وزارت تبدیل نہیں ہو سکتی لیکن وزارت کی تبدیلی کے عمل نے چودھری نثار علی خان کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پھر ان کی حلف اٹھانے کی باتیں میڈیا کی زینت بنیں۔

چودھری نثار کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور اب تک انہوں نے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی احتجاجاً اس لئے نہیں لیا کہ وہ سمجھتے ہیں انہیں جان بوجھ کر ایک منظم طریقہ سے اس لئے قومی اسمبلی سے باہر رکھا گیا تاکہ انتخابات 2018 کی ساکھ متاثر نہ ہو جہاں تک پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے مستقبل کا سوال ہے تو ایک کمزور وزیراعلیٰ کے طور پر پنجاب کی حکومت کی مضبوطی اور اس کی رٹ کے حوالہ سے سوالات اس وقت سے کھڑے ہیں جب سے وہ وزیراعلیٰ بنے ہیں اور اب بھی اگر ان کی تبدیلی کی افواہیں ہیں تو یہ ان کی جماعت کے اندر سے ہیں اور یہ وہی لوگ اڑا رہے ہیں جو اس منصب کے امیدوار ہیں۔ فی الحال تو پنجاب میں ق لیگ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے لیکن چودھری صاحبان کی سیاست کو گہرائی سے جاننے والے کہتے ہیں کہ جب تک انہیں کوئی حتمی سگنل نہیں ملتا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تبدیل کیا جا رہا ہے تب تک وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے لیکن جونہی ان کے خلاف سنجیدہ حرکت ہوتی ہے تو وہ خود امیدوار کے طور پر کھڑے ہوں گے۔

وفاق میں تبدیلیوں کے حالیہ ریلے میں چودھری مونس الٰہی کی نہیں سنی گئی جن کے بارے میں متعدد بار یہ کہا جاتا رہا کہ جب وزارتوں میں تبدیلی ہوگی تو مونس الٰہی وزیر ہوں گے لیکن چودھری صاحبان کی حکمت عملی کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ وقت گزارنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور صلاحیت بھی۔ لہٰذا آنے والے حالات میں اپنے سیاسی مفادات کیلئے وہ کسی وقت بھی کھل کر سامنے آ سکتے ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے کوئی بھی فی الحال عثمان بزدار کے متبادل کے طور پر اپنا نام وزیراعلیٰ کے طور پر لیتا نظر نہیں آ رہا لیکن خود تحریک انصاف کے حلقے جنوبی پنجاب سے نیک نام وزیر آبپاشی محسن لغاری، حسنین دریشک، ہاشم جواں بخت، چکوال سے یاسر ہمایوں، لاہور سے میاں اسلم اقبال جبکہ غیر سیاسی اہم حلقوں میں صوبائی وزیر اطلاعات صمصام بخاری کا نام بھی گردش میں ہے لیکن وہ اس کی تردید کر رہے ہیں۔ متبادل کون ہوگا یہ تبھی ظاہر ہوگا اگر وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو وزیراعظم عمران خان کی تائید حاصل نہ رہی۔ لہٰذا مذکورہ صورتحال کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ فوری طور پر پنجاب کی سطح پر سیاسی تبدیلیوں کا امکان نہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کی سیاست کا تعلق ہے تو جہانگیر ترین اپنی جماعت کی سیاست پر غالب ہیں اور جماعت کے اندر ان کے مخالفین کمزور وکٹ پر آگئے ہیں۔ اب ان کا نیا ٹارگٹ گورنر چودھری سرور ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ مشکل حالات میں کتنے زور آور ثابت ہوتے ہیں کیونکہ پنجاب کے حوالے سے ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب کے سیاسی بندوبست میں سے کوئی ایک اینٹ بھی نکلتی ہے تو پھر عمارت کا قائم رہنا مشکل ہوگا۔